ایم کیو ایم وزارتوں سے کبھی استعفیٰ نہیں دے گی، مصطفیٰ کمال
December 26, 2020
*مورخہ 26 دسمبر 2020*
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عوام جوتے لیے ایم کیو ایم کے انتظار میں بیٹھی کیونکہ ایم کیو ایم نے 2018 کی انتخابی مہم ہی اس بات پر چلائی کہ مردم شُماری میں کراچی کے 70 لاکھ لوگ لاپتہ ہیں اور آج وہی ایم کیو ایم کابینہ سے متنازع مردم شُماری منظور کروا کر اب عوام میں جانے کا کہہ رہی ہے۔ خالد مقبول صدیقی کا نام راء ایجنٹس نے جے آئی ٹی میں لیا کہ وہ مہاجر لڑکوں کو ٹریننگ کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے حوالے کر کے آئے تھے۔ ایم کیو ایم وزارتوں سے کبھی استعفیٰ نہیں دے گی کیونکہ یہ جیسے ہی حکومت سے علیحدہ ہونگے گرفتار کر لیے جائیں گے، اس لیے انہوں نے اہلیانِ کراچی پر اپنی وزارتوں کو فوقیت دی۔ اٹھارہ برس بعد ہونے والی مردم شُماری کو ہر طبقے نے مسترد کردیا ہے۔ نادرا سے جاری شدہ کراچی کے مستقل پتوں کے شناختی کارڈ ڈھائی کروڑ ہیں، ووٹر لسٹوں میں عوام کی تعداد زیادہ ہے جبکہ مردم شماری میں کم ہے۔ ہر ذی شعور شخص یہی کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستان دشمن اقدام ہے۔ ہم ملک چلانے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کراچی والوں کو ابھی حب الوطنی کے کتنے مزید سرٹیفیکیٹ دینے پڑیں گے کہ اہل کراچی کو برابر کا شہری تسلیم کریں؟وزیراعظم عمران خان دیگر یوٹرن کی طرح مردم شُماری کے معاملے پر بھی یوٹرن لیں۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور صاحب اقتدار کو اس کراچی سے کس بات کا ڈر ہے کہ ملک معاشی شہ رگ ہونے کے باوجود اسکے شہری تیسرے درجے کے شہریوں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ کراچی بد قسمت شہر ہے، جو اپنے وسائل کی وجہ سے عالمی حیثیت رکھتا ہے لیکن پاکستان چلانے والے اسے پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتے، دنیا ایسے شہروں کو چن کر دارالحکومت بناتی ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بیتی ہے، دارالحکومت کراچی سے ہٹا کر اسلام آباد کو نئے سرے سے بسایا گیا۔ اس پر بس نہیں چلا تو بھٹو دور میں یہاں حجرت کر کے پیسہ، تجارت، تعلیم، صحت، کاروبار، انڈسٹری کا پہیہ چلانے والے لوگوں کی تمام فیکٹریوں کو راتوں رات حکومت کے ماتحت کر کے ہتھیا لیا گیا، لوگ راتوں رات اپنی جائیدادوں سے محروم ہو گئے۔ پاکستان کی بیور کریسی کو چار چاند لگا کر پاکستان کا وقار بلند کرنے والوں کو راتوں رات او ایس ڈی بنا کر فارغ کردیا گیا۔ ذولفقار علی بھٹو نے اسی دور میں ظالمانہ کوٹہ سسٹم نافذ کر کے تعلیم اور قابلیت کا بیہیمانہ قتل عام کرکہ مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان نہ نظر آنے والی نفرت کی دیوار کھڑی کردی۔ کوٹہ سسٹم سے سب سے زیادہ نقصان سندھی بھائیوں کا ہوا ہے۔ان خیالات کا اظہار چئیر مین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال نے پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں پر ریفرنسز عائد کیئے جا رہے ہیں لیکن خالد مقبول صدیقی، عامر خان اور وسیم اختر کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں آرہا کیونکہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ ایم کیو ایم نے عوام خدمت کے بجائے اختیارات کا رونا روتے رہے لیکن یہ نہیں بتاتے کہ جب بلدیاتی اختیارات لیئے گئے تب پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے اتحادی تھے اور اپنے ہاتھ سے اختیارات پیپلز پارٹی کے حوالے کیے۔پچھلے تیرہ سالوں میں کراچی کا پانی بند کیا گیا، کوئی سرکاری بس نہیں چلی، کسی ہسپتال میں دوا نہیں ہے یہ کراچی کے ساتھ ظلم کی انتہا ہے اور یہ تمام ظلم اس شہر کی نام نہاد نمائندہ جماعت نے حکومتوں میں رہتے ہوئے کیا۔ ہڑتالوں کے لیے مشہور ایم کیو ایم الطاف حسین کے شناختی کارڈ کے لیے تو احتجاج کرتی رہی لیکن کبھی بھی بلدیاتی اختیارات، مردم شُماری یا عوام کے حقوق پر ایک ہڑتال نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ 7 دہائیوں بعد سندھ کی عوام کو شہروں میں منتقل ہونے کی وجہ سے جاگیر داروں اور وڈیروں سے حقیقی آزادی نصیب ہوئی اور چونکہ شہروں کی آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے اسی تناسب سے نشستیں بڑھتی اور پھر وڈیرے لوگوں کا پانی بند کر کے، جعلی ایف آئی آر درج کر کے انہیں ذاتی جیلوں میں رکھ کر انکا ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں نہیں آسکتے تھے بلکہ جو شہروں میں اکثریت حاصل کرتا وہ سندھ میں حکومت قائم کرتا اور شہروں میں دیہاتوں جیسے مظالم نہ ہونے کی وجہ سے ایک خاموش انقلاب برپا ہوتا، ایک امن اور انصاف کا معاشرہ قائم ہوتا لیکن اس انقلاب کو ملک دشمن اور عوام دشمن قوتوں نے گہری سازشوں سے روک دیا۔ چیف جسٹس پاکستان کہہ چکے ہیں کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں ہے۔ اگر سندھ کا دارالخلافہ کراچی جس میں ساری قومیتیں بستی ہیں کی آبادی کو صحیح گن لیا جاتا تو سندھ بھر کی عوام کو انکے حقوق مل جاتے۔ صوبائی وزیر تعلیم حیدرآباد میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں یونیورسٹی نہیں بننے دوں گا۔ ایم کیو ایم نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک اختلافی نوٹ ڈال کر اپنی جان چھڑائی جبکہ انہیں فی الفور اس کمزور ترین حکومت سے الگ ہونا چاہیے۔ پی ایس پی اس جعلی مردم شماری کو تسلیم نہیں کرے گی۔ ہمارا مطالبہ ہے وفاقی کابینہ اس فیصلے کو فی الفور واپس لے۔ پی ایس پی احتجاج کی جانب جائے گی۔ ہمارے احتجاج میں سندھی، مہاجر، بلوچ، پختون سب ہونگے۔ عمران خان تمام صوبوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کرائیں۔ یہ ہماری نسل کی بقاء کا مسئلہ ہے،اگر ہماری اس بات کو نہیں مانا گیا تو مطلب یہ ہے ہمیں آج بھی پاکستانی نہیں سمجھا جارہا۔ عوام کی خواہش ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اس مسلئے پر سو موٹو لیں۔ خدارا صرف نادرا کا ریکارڈ چیک کرلیں مسلئہ حل ہوجائے گا۔