خالد مقبول نے’را‘ کے ساتھ بیٹھ کر پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ دیا تھا، مصطفیٰ کمال
November 16, 2020
*مورخہ 16 نومبر 2020*
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے بھارتی خفیہ ایجنسی راء سے روابط کے ٹھوس شواہد کے انکشافات پر تہلکہ خیز پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے پرچم، انتخابی نشان، لیٹر ہیڈ اور جماعت کو الطاف حسین کی نشانی و باقیات ثابت کرتے ہوئے ایم کیو ایم(پاکستان) پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ریاست نے خود راء کے بقایا سیٹ اپ کو پاکستان میں ایم کیو ایم(پاکستان) کی صورت میں زندہ رکھا ہوا ہے۔ بھارت کے ایماء پر پاکستان اور اسکے اداروں کے خلاف جو نام، جھنڈا، نشان اور لیٹر ہیڈ الطاف حسین دنیا میں استعمال کر رہے ہیں وہی ایم کیو ایم ملک میں استعمال کر رہی ہے۔ الطاف حسین آج ایم کیو ایم کے نام، جھنڈے اور نشان کی صورت میں پاکستان میں زندہ ہیں۔ ایم کیو ایم کا نام، جھنڈا اور نشان دیکھ کر عوام کو خالد مقبول صدیقی اور عامر خان نہیں بلکہ الطاف حسین یاد آتے ہیں۔ موجودہ ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی بھارتی خفیہ ایجنسی راء کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں دکھائے جانے والے کراچی سے گرفتار راء ایجنٹس شاہد متحدہ اور عادل انصاری شامل تھے۔ شاہد متحدہ نے جے آئی ٹی میں اقرار کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کنوینر اور رکن قومی اسمبلی خالد مقبول صدیقی خود انہیں بھارت میں ٹریننگ کے لیے راء کے حوالے کر کے آئے تھے۔ اسلحہ بھی انکے موجودہ گھر میں چھپایا گیا تھا۔ خالد مقبول صدیقی الطاف حسین کی ہدایت پر بھارت گئے اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اپنا پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ دیا، جسکی وجہ سے انہیں حکومت ہندوستان نے بھارتی ڈپلومیٹک پاسپورٹ دیا گیا جس پر وہ امریکہ روانہ ہوئے، امریکہ پہنچنے پر خالد مقبول صدیقی کا نام نان ڈیزیگنیٹڈ لسٹ آف ٹیررسٹ (Non Designated list of Terrorist) میں شامل کیا گیا۔ وہی خالد مقبول صدیقی 13 سال بعد پاکستان واپس آکر نا صرف ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ، ایم این اے اور وزیر بن جاتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کے لیے نفیس انسان بھی ہوجاتے ہیں۔ آج ایم کیو ایم پاکستان والے لندن اور پاکستان میں جن جائیدادوں کے دعویدار بن رہے ہیں وہ راء کے فنڈنگ سے خریدیں گئیں ہیں. بہادرآباد کا مرکز بھی راء کے پیسوں سے خریدا گیا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کے ایک رائٹ ہینڈ 18 سالوں سے بھارت میں راء کے لیے کام کررہے ہیں جبکہ دوسرے ساتھی کینیڈا میں 20 سالوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی راء کا سیٹ اپ چلا رہے ہیں۔آج بھی ایم کیو ایم والے الطاف حسین کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم جلد اتنی طاقت حاصل کرلیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے سامنے جھک جائے گی تو ہم آپکی پارٹی آپکے حوالے کر دیں گے۔ یہ کیا دو رخی ہے کہ ریاست ایک جانب بھارتی خفیہ ایجنسی راء سے ایم کیو ایم کی وابستگی کے ثبوت دے رہی ہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم کو ایک بھارت ایجنٹ سے لے کر دوسرے بھارتی ایجنٹ کو دے دیتی ہے۔ چھوٹے کارکنان کو پکڑا جا رہا ہے لیکن جو لوگوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے لیے لگاتار کارندے بنا کر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں انہیں عزت و اکرام سے نوازا جا رہا ہے۔ ریاست کے بیانات کو قوم تب سچ مانے گی جب پاکستان میں راء کی جڑیں کاٹی جائیں گی۔ ایم کیو ایم رہنماؤں کو چاہیے ہماری طرح سچ بولنے کا حوصلہ کریں اور اپنے نئے نام، جھنڈے اور نشان کے ساتھ سیاست کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اسکے بعد دوسری، تیسری ساعت چوتھی پریس کانفرنس میں اس پریس کانفرنس سے کہیں زیادہ تہلکہ خیز انکشافات کروں گا۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ سیاسی بحران سے بچنے کے لیے ایم کیو ایم کے اراکین قومی، صوبائی اور سینیٹرز کو فی الحال حکومت کا حصہ رہنے دیا جائے۔ حکومت کے پاس فروغ نسیم سمیت بڑے قانون دان موجود ہیں، جو حکومت کے لیے بحران پیدا کیئے بغیر آئینی راستہ نکال سکتے ہیں۔ مہاجروں کے قاتل آج خود کو انکا مسیحا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور اسکے ایسے سربراہ کی موجودگی میں مہاجروں کو حقوق نہیں ملیں گے جن کی فائلیں ہر جگہ موجود ہوں۔ پی ایس پی نے مہاجروں کا مقدمہ لڑا ہے، ریاست سے اپیل کرتا ہوں مہاجروں اور بلوچ نوجوانوں کو ایک موقع دیں اور عام معافی کا اعلان کریں۔ جو بھی حرام کما کر مہاجروں کو گدھ کی طرح نوچنا نہیں چاہتا، اسے ہم باہیں پھیلا کر پی ایس پی میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ 8 نومبر کو مہاجر، سندھی، پختون، پنجابی، بلوچ اور دیگر قومیتوں نے پی ایس پی کے جھنڈے تلے جمع ہو کر پیغام دیا کہ اب ہمیں کوئی نہیں لڑا سکتا۔ ایم انور نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ وہ تسلیم کیا کہ وہ 21 سالوں سے بھارتی خفیہ ایجنسی راء سے پیسے لے کر الطاف حسین کو پہنچا رہے تھے نیز انہیں راء سے رابطے میں لانے والے ندیم نصرت تھے۔ آج ریاست میری باتوں پر سچ کی مہر ثبت کر رہی ہے۔ اگر ریاست ایم کیو ایم کا نام، جھنڈا اور نشان ختم نہیں کرتی تو پھر سارے بیانات قوم کے ساتھ ایک بھدا مزاق ہیں۔ بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے، کشمیر میں ظلم و بربریت کی انتہا ہے۔ ان حالات میں راء کا سیٹ اپ اگر کراچی میں دہشتگردی نہیں کر پارہا تو اسکے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیساتھ پی ایس پی کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ مہاجروں کو سوچنا چاہیے اگر انکے یہی نمائندے رہے تو کبھی بھی انکو اور انکی نسلوں کو حقوق نہیں ملیں گے۔ کراچی کا برا چاہنے والے ایم کیو ایم کی تلوار سے جب چاہیں گے مہاجروں کا گلا کاٹیں گے۔ جن سے حقوق لینے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کیا ہے تو وہ اختیارات کیوں دیں گے؟ ہم تمام محب وطن لوگوں کو کھلے دل سے دعوت دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور پی ایس پی کا حصہ بن کر شہر، صوبے اور ملک کی خدمت کریں۔ پریس کانفرنس کے موقع پر صدر پاک سر زمین پارٹی انیس قائم خانی، اراکینِ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل بھی موجود تھے۔