Categories
خبریں

آج پاکستان میں جتنی مایوسی ہے، اتنی مایوسی کبھی نہیں تھی۔ مصطفی کمال

آج پاکستان میں جتنی مایوسی ہے، اتنی مایوسی کبھی نہیں تھی۔ مصطفی کمال

Homepage

*مورخہ 8 نومبر 2020*

(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے باغ جناح میں منعقدہ جلسے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں جتنی مایوسی ہے، اتنی مایوسی کبھی نہیں تھی۔ پہلے لوگ حکمرانوں سے مایوس ہوتے تھے تو اپوزیشن سے بھی ناامید ہیں، ایک ادارے سے مایوس ہوتے تھے تو دوسرے ادارے سے امید ہوتی تھی۔ آج پاکستان کی عوام تمام سیاسی جماعتوں، اپوزیشن اور اداروں سے مایوس ہے۔ ڈھائی سال حکومت میں گزر جانے کے بعد بھج ان کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ اب ملک کے حکمران ہیں۔  حکومت کو الیکشن کمپین کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عوام کے نام پر جلسے جلوس کیئے جا رہے ہیں۔ 11 جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے یہاں عوام سے بات کی جائے۔ اسی مقام پر پاکستان کی 11 بڑی سیاسی جماعتیں آئیں اور اپنے سرکاری وسائل خرچ کیے۔ ان 11 جماعتوں نے 18 اکتوبر کو باغ جناح میں جو جلسہ کیا اس میں کراچی کے لوگ نہیں تھے۔ ایک لفظ بھی پاکستان کے عوامی مسائل کے حل کے لیے نہیں بولا گیا۔ ساری سیاسی جماعتوں نے ایک ہی مدعے پر بات کی کہ موجودہ حکمرانوں کو اتارو اور ہمیں حکمران بنا دو۔ یہ تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہونے کا ڈرامہ کر رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس کی میزبانی کر رہے تھے جنکی 12 سال سے سندھ میں حکومت ہے۔ باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ آج ان کے پاس ایک کونسلر بھی نہیں ہے۔ غریبوں کی بات کیسے کرتے ہیں؟ کیسے لوگوں سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں؟ بلاول نے کراچی والوں سے جھوٹ بول کر غلطی کر دی ہے۔ 12 سالوں سے حکومت ہے لوگ مر رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت نے بھی ہمیں صوبائی حکومت کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ پچھلے 12 سالوں سے سند ھ میں 70 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ عدالتیں فیصلہ دے رہی ہیں کہ اگر اب کتوں نے کسی کو کاٹا تو اس علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ حکمرانوں میں اتنی جرات ہے تو عوام کے حقوق کی بات کریں ۔ اب مصطفیٰ کمال اور اس کے لوگوں کا دور ہے۔ پی ایس پی والے کراچی کے وارث ہیں۔ صوبے اور پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ تمہارا دور ختم ہونے والا ہے۔ کسی قوم کو توڑنا ہو تو اس سے امید چھین لو۔ آج کسی حکمران کو یہ سوچنے کی توفیق نہیں ہے کہ ان کی حکمرانی سے عوام کو کیا فائدہ ہے، صرف دوسروں کے لیے چور چور کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 10 سالہ دور میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 6694 ارب روپے خرچ کیے۔ 8 ہزار 342 ارب روپے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت گزشتہ 10 سالوں میں کرپشن کی نظر کر چکی ہے۔ رکشے والوں کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے نکل رہے ہیں۔ تین سو ارب روپے میں کراچی کی سینکڑوں سڑکیں اور انڈر پاسز اور فلائی اوور بنائے۔  400 سے زائد پارکس بنائے۔ پورے شہر کو روشن کیا۔ صرف 300 ارب روپے خرچ کرنے پر دنیا بھر سے ایوارڈ ملے۔ پیپلز پارٹی نے دس سالوں میں 8 ہزار 342 ارب خرچ کر دیئے۔ کراچی اب انکا حساب لے گا۔ سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے نوکریاں نہیں ہیں۔ ساری صنعتوں کو تباہ کر دیا ہے۔ سڑکیں تباہ کیں، کراچی کو پانی سے محروم کیا۔ یہاں کے صنعت کاروں کو ہجرت پر مجبور کیا۔  نوجوانوں سے اب پرائیویٹ نوکری بھی چھینی جا رہی ہے۔ 12 سالوں سے شہر کو ایک قطرہ پانی نہیں دیا گیا۔ ٹینکر مافیا سے مل کر کراچی والوں کو ان کا ہی پانی بیچا جاتا ہے۔ کراچی کو کوئی بس نہیں دی گئی۔ دنیا کے اہم ادارے رپورٹ میں کہہ رہے ہیں کہ کراچی دنیا کی سب سے خراب ٹرانسپورٹ والا شہر ہے۔ کراچی رہنے کے لائق دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہے۔ 70 سال پہلے یہاں ٹرام چلتی تھی۔ آج لاہور میں جگمگاتی ہوئی اورینج ٹرین چل رہی ہے۔ پنجاب کے بھائیوں کی ترقی دیکھ کر خوش ہیں لیکن ہم کراچی والے بھی انسان ہیں فرشتے نہیں۔ جب اپنی بس دیکھتے ہیں تو کراچی والوں کے دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہیں؟۔ کیا کراچی والوں کو ہمیشہ حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑے گا؟ حکمرانوں کراچی والوں کو زہر ملا پانی پلانا بند کرو، کراچی میں دہائیوں سے کوئی نیا اسکول، یونیورسٹی یا کوئی تعلیمی ادارہ تعمیر نہیں ہوا ہے۔ کراچی میں ذرا سی بارش ہوتی ہے تو لوگ سڑکوں پر کرنٹ لگنے سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ آج سے دو مہینے پہلے اس شہر کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے، لوگ مر گئے، اپنے گھروں سے نکل مکانی کی۔ اتنی تباہی اور بربادی ہوئی کہ چیف جسٹس کو عدالت لگانی پڑی اور آرمی چیف کو دو راتوں کے لیے کراچی میں رکنا پڑا۔ عمران خان کراچی والوں کے لیے 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرکے چلے گئے۔ اب تب یاد آئے گی جب اس شہر میں پھر بارش ہو گی اور ماؤں کے بچے تڑپ تڑپ کر مریں گے۔ ملک چلانے والوں کراچی والوں کا فیصلہ کرو۔ ہمیں ایک مرتبہ بتا دو کہ اس ملک میں کراچی میں رہنے والے تیسرے درجے کے شہری ہیں۔ کراچی والوں کی گنتی کبھی صحیح نہیں ہوئی۔ کوئی ہمیں صحیح گننے کے لیے تیار نہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کہتے ہیں کہ ہم تین کروڑ ہیں اور پاکستان کے سرکاری ادارے کہتے ہیں ہم ایک کروڑ 60 لاکھ ہیں۔ ہم پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں اور اسے چلانے والوں کی نسلیں۔ آج سے چار سال پہلے ہم نے سچ بولا تو اس شہر میں سچ بولنے کی سزا موت تھی۔ ہم نے اپنے خاندانوں کی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کی خاطر جہاد کی۔ ہمارے اپنوں نے ہمیں غدار کہا۔ اگر ہمارے غدار ہونے سے کسی ماں کا بچہ دفن ہونے سے بچتا ہے تو ہاں ہم غدار ہیں۔ اب اس شہر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اب ہمارا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس خاموش انقلاب کو سنو۔ یہ کوئی سرکاری پارٹی کا جلسہ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بلاول بھٹو سے پوچھنا چاہئے تھا کہ تمہارے صوبے میں کتے کے کاٹے سے لوگ مر رہے ہیں۔ بی آر ٹی لائن اور گرین لائن بنوا کر گئے اس کو زنگ لگ رہا ہے۔ زبان کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کر کے  کراچی کے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ملک کے اداروں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ لاپتہ لوگوں کا مسئلہ پورے پاکستان میں ہے لیکن مریم نواز نے اپنے والد کے دور میں ان لاپتہ لوگوں کا مسئلہ حل کیوں نہیں کیا؟ میرے پاس ساڑھے 550 سے زائد لاپتہ لوگوں کی مائیں آئیں. میں نے ان کا مقدمہ لڑا. پاکستان کے اداروں کو برا بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ان لاپتہ لوگوں نے کسی کے کہنے پر غلط راستہ اختیار کر لیا تھا۔ میں نے بہت سی لاپتہ ماؤں کے بچے بازیاب کرا کے ان کی ماؤں کے پاس پہنچائے۔ ہم نے لاپتہ لوگوں کی میڈیا میں خبریں نہیں چلوائیں۔ ان اداروں کو آپ نے پہلے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور اب  ادارے آپکی توقعات کے مطابق عمل نہیں کر رہے تو آپ ان اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے چور ہیں میں ان سے بات نہیں کروں گا، جسکی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا۔اس ملک میں بادشاہت نہیں، یہ آئین کے مطابق چلتا ہے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے۔ غریب کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔ معیشت تباہ ہو گئی ہے۔ بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ معصوم بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا جا رہا ہے، اس کے ذمہ داران حکمران ہیں۔ مودی کشمیریوں کا قاتل ہے اس سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے ملک کی اپوزیشن کی جماعتوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو پاکستان کی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔ عمران خان جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن وہ آئین پر عمل نہیں کر رہے۔ بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیئے جا رہے۔ بلوچستان میں سرکاری افسروں سے بلدیاتی ادارے چلوائے جا رہے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ آپ کو اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے ہوں گے۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ کن اصولوں پر پاکستان کو چلانا ہے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے ایک دوسرے سے مل کر کر بات کرنے کی ابتداء کرنی ہوگی۔ کراچی میں صوبائی اسمبلی کی 75 اور قومی اسمبلی کی 40 نشستیں ہونی چاہیے۔ اب کراچی والوں کے خلاف سازشیں بند ہونی چاہئیں۔ کراچی پاکستان کو سیاسی طور پر لیڈ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس نظام سے ملک نہیں چلے گا اس کو ہمیں بدلنا پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے، حکمرانوں اس ملک میں اصلاحات کرو، اپنی عدالتوں، سرکاری اداروں، اسپتالوں، پولیس والوں کی اصلاحات کرو۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں برطانیہ کے وزیرا عظم سے بات کرکے نواز شریف کو لاؤں گا۔ اگر برطانیہ کا وزیر اعظم آپ کا دوست ہے تو اس سے کشمیر کا مسئلہ حل کرائیں، پاکستان میں صنعتجں لگوائیں۔ آج پاک سرزمین پارٹی کراچی سے نکل کر گلگت بلتستان تک پہنچ گئی ہے، گلگت کی عوام پی ایس پی کے نمائندوں کو منتخب کرے جلد وہاں آؤں گا۔