گیارہ جماعتوں نے مل کر جلسہ کیا وہاں پاک سر زمین پارٹی 8 نومبر کو تنہا جلسہ کر کے کراچی سمیت ملک بھر کی عوام کے حقیقی مسائل اجاگر اور انکا حل پیش کریں گے۔ مصطفی کمال
November 3, 2020
*مورخہ 3 نومبر 2020*
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 8 نومبر باغ جناح کراچی کے جلسے سے انشاء اللہ حکومتی ایوانوں اور اپوزیشن پر لرزہ طاری ہوجائے گا، ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا ایسا قابل عمل روڈ میپ پیش کریں گے، جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس سے امید چھین لو، پاکستان کے دانشورو، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام عوام سے حکومت اور اپوزیشن نے امید چھین لی ہے، قوم دونوں سے مایوس ہو چکی ہے۔ ملکی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے عوامی مسائل پر ذاتی غصے اور انا کو فوقیت دے رکھی ہے۔ حکومتی وزراء کا صرف ایک کام ہے کہ اپنی کارکردگی بتانے کے بجائے اپوزیشن کے لوگوں کو برا بھلا کہیں۔ سیاسی ماحول دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ملک میں الیکشن کا ماحول ہے جو باتیں حکمران انتخابات کے وقت کرتے تھے وہی آج بھی کر رہے ہیں۔ اپوزیشن حکومت کو گرانا چاہتی ہے، اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو استعفیٰ دیں ایک گھنٹے میں حکومت ختم ہو جائے گی۔ کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کی میزبان پیپلز پارٹی تھی۔ پیپلز پارٹی ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہی ہے۔ سندھ میں 12 سال سے حکومت کرتے ہوئے انقلابی اپوزیشن کا لبادہ بھی اوڑھ لیا ہے۔ پیپلز پارٹی مسائل کی بنیادی وجہ ہے اور وہی پی ڈی ایم میں انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ مریم نواز جس اسٹیج سے تقریر کررہی تھیں وہاں انہیں جلسے کی میزبان پیپلز پارٹی سے پوچھنا چاہئے تھا کہ سندھ میں بچوں کو کتے کیوں کاٹ رہے ہیں۔ کراچی بارشوں میں تباہ حال کیوں تھا، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کو کراچی کی تباہی پر کیوں آنا پڑا؟ گزشتہ ماہ کراچی کی سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ گٹر کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا۔ کسی کے پاس عوام کے مسائل حل کرنے کا فارمولا درکنار گفتگو بھی نہیں ہے، اپوزیشن کے لوگوں نے اپنے دور اقتدار میں ایسے کیا کام کیئے جس سے عوام کو ان سے دوبارہ امید باندھنی چاہیے۔ پہلے نہیں کیا تو اب بھی کیا فارمولا دے رہے ہیں۔ کراچی کے جلسے میں 11 جماعتوں کے لیڈران نے کراچی کی بات نہیں کی تاثر دیا گیا کہ حکومت کا جانا ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ ایک طرف اس ملک کے حکمران ریاست کو آئینی بحران کی جانب لے گئے ہیں تو دوسری طرف 11 جماعتوں نے کراچی کا پلیٹ فارم استعمال کر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم عمران خان بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اپنے ملک کے لوگوں کے ووٹوں سے منتخب اپوزیشن اراکین سے نہیں۔ نیب، الیکشن کمیشن اور دیگر اہم اداروں کے چیئرمین اپوزیشن کی مشاورت سے لگتے ہیں، سینیٹ کا چیئرمین لگانا ہو تو اپوزیشن کے ووٹ حلال ہیں لیکن عوام کی بات کرنی ہو تو بات چیت حرام ہے۔جس جگہ 11 جماعتوں نے مل کر جلسہ کیا وہاں پاک سر زمین پارٹی تنہا جلسہ کر کے کراچی سمیت ملک بھر کی عوام کے حقیقی مسائل اجاگر اور انکا حل پیش کریں گے۔
کہان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر پارٹی صدر انیس قائم خانی، سیکرٹری جنرل حسان صابر، اراکینِ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل اور دیگر مرکزی زمہ داران بھی موجود تھے۔ سید مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے ہو کر شیم شیم کے جو نعرے لگائے گئے ان سے لاپتہ افراد اور انکے اہل خانہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا ہوگا۔ جب میں اور انیس قائم خانی آئے 550 کے قریب لوگ لاپتہ تھے جن کے اہل خانہ نے ہم سے رابطہ کیا۔ کسی ایک لاپتہ شخص کی ماں، بہن، بیٹی کو کھڑا کر کے پوائنٹ اسکورنگ نہیں کی۔ ہم نے کھلے عام اور بند کمروں میں کہا کہ یہ لوگ ماں کے پیٹ سے کرمنل پیدا نہیں ہوئے۔ انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ گارنٹی لی کہ یہ لوگ دوبارہ اس راستے پر نہیں چلیں گے۔ آج الحمدللہ تقریباً 470 بازیاب ہوچکے ہیں، صرف 59 کارکنان لاپتہ ہیں، جن کو لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان لاپتہ افراد کی ماؤں، بہنوں سمیت ادارے بھی پریشان تھے۔ ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ کرنا درست نہیں، دونوں طرف کی بات سن کر بڑا بن کر اصلاح کرنے کا کردار کوئی ادا کرنا ہوتا ہے۔ پنجاب میں اورنج لائن ٹرین چلی تو ترقی پر خوشی ہوئی لیکن انسان ہیں جب اپنے شہر میں چنگچی رکشے چلتے دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم دوسرے درجے کے شہری اور کم پاکستانی یا محب وطن ہیں؟ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، پاک سرزمین پارٹی ہی عوام کے مسائل پر بات کر رہی ہے، عوام کی حقیقی ترجمان اور ملک بھر میں تیزی سے ابھر رہی ہے۔ ہم نے کہا کہ الطاف حسین کو لاشیں چاہئیں آپ 10 دیں گے وہ وہی لاشیں دکھا کر 100 کارکنان مزید پیدا کر لیں گے، پھر یہ سلسلہ تھما۔ ملک میں ہر شعبہ شکایت کرتا ہوا نظر آرہا ہے، میر شکیل الرحمن کافی عرصے سے پابند سلاسل ہیں لیکن انکے جرم کا پتہ نہیں۔ مہذب معاشروں میں زرائع ابلاغ کے لوگوں کے ساتھ ایسا طرزِ عمل روا نہیں رکھا جاتا، پریس کلب کے فورم سے بھی انکے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، پاکستان میں جرم ثابت ہونے سے پہلے گرفتار کر لیا جاتا ہے، یہ ظلم ہے۔ پاک سرزمین پارٹی ہر ظلم کے خلاف بولے گی، مولا علیہ السلام کا قول ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں۔ بعد ازاں انہوں نے پریس کلب کے صدر امتیاز فرحان، سیکریٹری ارمان صابر سمیت گورننگ باڈی کے ممبران اور صحافتی برادری حق کی آواز لوگوں تک پہنچانے اور مدعو کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے زرائع ابلاغ سے وابستہ لوگوں سے ملکی مفاد میں بھرپور تعاون کی اپیل کی۔
*مرکزی شعبہ نشر و اشاعت*
*پاک سرزمین پارٹی*