Categories
خبریں

اپوزیشن حکومت گرانے میں لگی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کا صفایا کرنے میں لگی ہے۔ مصطفی کمال

اپوزیشن حکومت گرانے میں لگی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کا صفایا کرنے میں لگی ہے۔ مصطفی کمال

Homepage

*مورخہ 9 اکتوبر 2020*

(پریس ریلیز) اپوزیشن حکومت گرانے میں لگی ہے جبکہ حکومت اپوزیشن کا صفایا کرنے میں لگی ہے۔ ملک میں نا حکومت نام کی کوئی چیز ہے اور نا اپوزیشن نام کی شے ہے۔ اگر اپوزیشن واقعی حکومت گرانے میں مخلص ہے تو استعفی دے، ایک گھنٹے میں حکومت گر جائے گی، لیکن پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت کے مزے بھی لینے ہیں اور بیک ڈور سے رابطے بھی استوار رکھنے ہیں۔ اپنی سیاست کی بقا کی خاطر پاکستان کے اداروں اور انکے سربراہوں کو بدنام کرنا پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش ہے جسکا ناقابلِ تلافی نقصان ملک کو پہنچے گا۔ عمران خان جمہوری حکمران کم بادشاہ زیادہ لگتے ہیں کیونکہ انکی انا انہیں اپوزیشن سے بات کرنے سے روکتی ہے۔ نواز شریف جس اے پی سی میں جمہوریت کے علمبردار اور انقلابی رہنما بن کر ابھرنا چاہتے ہیں اسکی میزبان پیپلز پارٹی ہے جس کی صوبہ سندھ میں حکومت ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ پیسے اور طاقت جس حکمران کے پاس ہیں وہ سندھ کے وزیرِ اعلیٰ ہیں۔ نواز شریف کو پیپلز پارٹی سے پوچھنا چاہئے کہ کراچی سے کشمور تک سندھ کو کیسے تباہ و برباد کر رکھا ہے، صرف سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو ایک سال میں کتوں نے کاٹا ہے۔ آج تک نواز شریف کی شروع کی گئی گرین لائن پر بسیں آہی نہیں سکیں۔ کے فور کا منصوبے پر کام شروع نا ہوسکا۔ نواز شریف جب حکومت میں تھے تو انہوں نے مک مکا کے تحت سندھ پیپلز پارٹی کے حوالے کیا ہوا تھا کہ وہ جیسے چاہیں سندھ کو لوٹیں اور تباہ کریں لیکن وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت چلنے دیں۔ بلدیاتی حکومت جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے لیکن پیپلز پارٹی بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں۔ میاں نواز شریف بتائیں کہ اگر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہ ہو رہے ہوتے اور کیئر ٹیکر گورنمنٹ کہتی کہ انتخابات نہیں کراسکتے تو اپوزیشن کا آئین، جمہوریت اور اسلام خطرے میں پڑ جاتا، پھر انہوں نے تو پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی تھی۔ لیکن اے پی سی میں موجود کسی جماعت کے منہ سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک لفظ نہیں سنا۔ وفاق کا سارا احتساب حزب اختلاف کے لیے ہیں، کراچی اور حیدرآباد کے پچھلے میئر اور ڈپٹی میئر کرپٹ تھے۔ وزیراعظم عمران خان واقعی اگر کرپشن کے خلاف کمر بستہ ہیں تو ایم کیو ایم کے میئرز کے خلاف تحقیقات کراتے لیکن عمران خان کی حکومت کے لیے ایم کیو ایم کیو کی چھ سیٹیں احتساب سے زیادہ اہم ہیں۔ پھر یہ ریاست مدینہ تو نہیں ہوئی۔ ملک ایسے نہیں چل سکتا، پاکستان کے حالات اتنے برے کبھی بھی نہیں رہے، ملک بھر میں حکومت اور اپوزیشن کے رویے کی وجہ سے مایوسی عروج پر ہے۔ قوم کو حکومت اور اپوزیشن پر اعتماد نہیں رہا۔ قوم نا امید ہوچکی ہے۔ کسی قوم کو اندر سے تباہ کرنا ہو تو اس کی امید ختم کر دو۔ آئین میں لکھا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے بات کرے لیکن عمران خان ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ملک کا انتظامی پہیہ منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ تیسری جانب سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی والے مل کر مہاجر اور سندھی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اپنی 4 سالہ کرپشن کو صوبے کے نعرے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ عملی طور پر لیاقت آباد کی ایک گلی علیحدہ نہیں کر سکتے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ایم کیو ایم کی ناکام ریلی کے مقابلے میں ایک ناکام ریلی نکالی، پیپلز پارٹی اگر واقعی کراچی والوں سے مخلص ہوتی تو ایم کیو ایم کی ریلی کے جواب میں ریلی نکالنے کے بجائے کراچی والوں کو ریلیف دیتی۔ ایم کیو ایم کے صوبے کے نعرے کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا ہے۔ وہ سندھیوں کو آواز لگاتی ہے کہ بھوک، گندا پانی پینے، کتے کے کاٹنے، ایڈز ہیپاٹائٹس سے مرنا بھول جائیں روٹی، کپڑا اور مکان بھول جاؤ اور دیکھو کہ مہاجر سندھ توڑ رہے ہیں، اس لیے دھرتی ماں کو بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں اور یوں دونوں اپنی کرپشن پر پردہ ڈال کر جن قومیتوں کے نام پر سیاست کر رہے ہیں انہی کا استحصال کرتے ہیں۔ مہاجروں اور سندھیوں کیساتھ ظلم پیپلز پارٹی کررہی ہے۔ جسطرح مہاجروں کا ایم کیو ایم سے تعلق نہیں اسی طرح سندھیوں کا پیپلز پارٹی سے واسطہ نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے نیب کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری جنرل حسان صابر و دیگر اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اور اے پی سی میں موجود سیاسی جماعتوں کو کوئی فکر نہیں کہ عوام کو خوراک، پانی، صحت، تعلیم، روزگار اور انصاف مل رہا ہے کہ نہیں۔ ملک آٹو پر چل رہا ہے۔ کسی کا ماضی ڈھکا چھپا نہیں، اگر سب واقعی مخلص ہیں اور اپنے بیانیے کے مطابق اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بند کر کے سب کو بیٹھ کر ایک نیا عمرانی و ریاستی معاہدہ کرنا ہوگا۔ ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ عوام کی تقدیر بدلے گی۔