چاروں ریاستی ستونوں آرمی، عدلیہ، وزیراعظم اور میڈیا کا کراچی کی زبوں حالی پر تشویش میں مبتلا ہونا خوش آئند ہے, مصطفی کمال
September 5, 2020
مورخہ 5 ستمبر 2020
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ جب تک مستقل بنیادوں پر کراچی کی معاشی و انتظامی خودمختاری کے لیے اصلاحات نہیں کی جاتیں تب تک گیارہ سو ارب تو کیا 11 ہزار ارب روپے کا پیکج بھی سود من ثابت نہیں ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کی تعصب زدہ اور کرپٹ سندھ حکومت مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کی جڑ ہے۔ آرمی چیف کراچی کے مسائل کے حل کے لیے دو دن کراچی میں گزار کر گئے ہیں، جسکے بعد وزیر اعظم کراچی پہنچے ہیں۔ گو کہ چاروں ریاستی ستونوں آرمی، عدلیہ، وزیراعظم اور میڈیا کا کراچی کی زبوں حالی پر تشویش میں مبتلا ہونا خوش آئند ہے لیکن پاکستان کی معاشی شہ رگ جو بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہے کسی بھی وقت سیکیورٹی رسک میں تبدیل ہوسکتی ہے اسے صرف کمیٹیاں بنا کر ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ صرف آرمی چیف عمل درآمد کو یقینی بنا سکتے ہیں جسکے لیے وہ اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری جانب وزیراعظم کی کراچی آمد پر پی سی آئی سی کے قیام کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سندھ حکومت نے 800 ارب کے بارے میں نوید سنا دی کہ یہ رقم تو وہ پہلے ہی مبینہ طور پر کراچی کی ترقی پر کچھ اس طرح خرچ کررہی ہے جو ساری دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں اہلیانِ کراچی شدید تذبذب اور مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں۔ کراچی کیلئے اعلان کردہ پیکج کا اہلیانِ کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انتظامی خودمختاری کے بغیر شہر اپنی مکمل افادیت کے ساتھ پاکستان کی معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر پائے گا جبکہ سب جانتے ہیں کہ کراچی ملک کو اس سے کہیں زیادہ کما کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب تک پی ایس پی کے پیش کردہ چھ نکات پر عمل نہیں کیا جاتا کوئی سا بھی پیکج گٹر میں ڈالنے کے مترادف ہے، کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، اسے دانا نہیں دیں گے تو مسائل حل نہیں ہوں گے، کراچی کی تباہی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے، اٹھارویں ترمیم یہ نہیں کہہ رہی کہ کوئی وزیر اعلیٰ صوبے کا ڈکٹیٹر بن جائے۔ صوبے وفاق سے اختیارات لیکر شہروں، دیہاتوں، ٹاؤنز، ڈسٹرکٹ، یوسیز تک منتقل نہ کرکے دراصل صوبے کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ ڈویژن کے زمہ داران کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے ڈسٹرکٹ، شہر، ٹاؤن اور یوسی خودمختار ہونے کے بجائے وزیر اعلیٰ خودمختار ہوگئے ہیں۔ وفاقی حکومت فوری طور پر این ایف سی کی طرز اور فارمولے پر پی ایف سی ایوارڈ کا اجراء کرے تاکہ اختیارات اور وسائل نچلی سطح تک منتقل ہوسکیں، اسکے علاوہ ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کی حیثیت ایک چوکیدار کی تھی جو غیر قانونی تعمیرات کو روکتا تھا لیکن 2013 میں سندھ حکومت نے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ماتحت کرکہ چوکیدار کو چور کی نگرانی میں دے دیا گیا جس سے کراچی تباہ و برباد ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے 2013 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے علیحدہ کرکہ ایک آزاد اور خودمختار ادارے کے درجے پر دوبارہ بحال کیا جائے۔ شہر میں کام کرنے والی 18 مختلف اسٹیک ہولڈرز کی میونسپل سروسز کو ایک با اختیار مئیر کے ماتحت کیا جائے۔ کراچی سندھ دھرتی کا دل ہے، اسے لسانی بنیادوں پر سات ٹکڑوں میں تقسیم کر کے سندھ کی تقسیم کی بنیاد ڈال دی گئی ہے۔ کراچی کو ایک ڈسٹرکٹ اور 18 ٹاؤن میں دوبارہ بحال کر کہ ایک مئیر کے ماتحت کیا جائے تاکہ کم از کم نالے تو پورے شہر کے صاف ہوسکیں، ابھی ایک ڈسٹرکٹ نالہ صاف کرتا ہے تو دوسرا نہیں کرتا جسکی وجہ سے نالے ابلتے ہیں۔ کراچی کی درست مردم شُماری کروا قومی اور صوبائی اسمبلی میں آبادی کے لحاظ سے نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔