Categories
خبریں

چئیر مین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 6 نکاتی پلان پیش کردیا۔

چئیر مین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 6 نکاتی پلان پیش کردیا۔

Homepage

*مورخہ 1 ستمبر 2020*

(پریس ریلیز) چئیر مین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے 6 نکاتی پلان پیش کردیا۔

1- کراچی کی درست مردم شماری کروائی جائے تو اس شہر کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ بنتی ہے، اس تناسب سے کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ 36 ملین آبادی پر خیبر پختونخوا کی 64 قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت بیشمار دانشور اور لکھاری کہہ چکے ہیں کہ کراچی کی آبادی کسی طور تین کروڑ سے کم نہیں۔

2- اٹھارویں ترمیم کے زریعے جہاں ڈسٹرکٹ شہر اور یوسی کو خود مختار ہونا تھا وہاں صوبائی خودمختاری کے نام پر وزیر اعلیٰ خود مختار ہوگئے ہیں، اب یہ وزیراعلی کے ایما پر ہے کہ وہ کسی ڈسٹرکٹ کو فنڈ دیں یا نہیں دیں۔ ان اختیارات اور وسائل کو ڈسٹرکٹ، ٹاون، تحصیل اور یوسی تک کی نچلی ترین سطح تک منتقل کر کہ وزیراعلی کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ، ٹاؤن اور یوسی کو خودمختار بنایا جائے۔

3- این ایف سی NFC ایوارڈ کا فنڈ وزیراعلی اپنے ایما پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ فنڈ ڈسٹرکٹ، ٹاؤن اور یوسی کی سطح تک نہیں پہنچ رہے، لحاظہ این ایف سی NFC کے فارمولے کی طرز پر پی ایف سی PFC ایوارڈ کا اجراء کیا جائے تاکہ فنڈ صوبے کے ڈسٹرکٹ، ٹاؤن اور یوسی تک پہنچے۔ وفاقی حکومت کو اسکے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، جو پیسے وفاق سے صوبوں کو ملتے ہیں وہ وزراء اعلیٰ کے نہیں عوام کے پیسے ہوتے ہیں، انہیں عوامی مفاد میں نیچے منتقل ہونا چاہیے۔

4- وزیر اعلیٰ سندھ کے 2013 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے علیحدہ کرکہ ایک آزاد اور خودمختار ادارے کے درجے پر دوبارہ بحال کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ کے فیصلے کی مثال ایسی ہے کہ چوکیدار کو چور کے ماتحت دے دیا گیا ہو۔

5- کراچی کی 7 ڈسٹرکٹس کی تقسیم ختم کرکہ ایک ڈسٹرکٹ اور 18 ٹاؤن کی صورت میں دوبارہ بحال کیا جائے۔ کراچی ہمیشہ سے ایک ڈسٹرکٹ تھا جسے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی روایتی عصبیت اور سیاسی مفادات کی نظر کرتے ہوئے ایک ڈسٹرکٹ کا دوسرے ڈسٹرکٹ سے انتظامی رابطہ منقطع کر دیا۔ 1 نالہ اگر 2 ڈسٹرکٹ سے گزرتا ہے اور اسکی 1 ڈسٹرکٹ میں صفائی ہو تو کچھ حاصل نہیں ہوگا وہ مختلف جگہوں پر بند ہی رہے گا۔ پیپلز پارٹی کا یہ موقف کہ لوگوں کو سرکاری دفاتر دور ہونے کی وجہ سے دشواری تھی درست نہیں کیونکہ پہلے ٹاؤنز تھے اور انکے تمام کام انہی کے علاقوں میں بیٹھے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہوتے تھے اور ٹاؤنز کے دفاتر ڈسٹرکٹ کے دفاتر کے مقابلے زیادہ قریب تھے۔

6- شہر کی میونسپل سروسز کا ایک سربراہ ہونا چاہیے، تمام 18 میونسپل سروسز، کنٹونمنٹ بورڈ، ڈی ایچ اے، کے پی ٹی، پورٹ قاسم، ایم ڈی اے، سائٹ لمیٹڈ، ریلوے، سول ایوی ایشن و دیگر کے رہائشی علاقوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ڈی نوٹیفائی کرکہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا حصہ بنایا جائے جسکا سربراہ شہر کا منتخب میئر ہو۔ اس معاملے میں لینڈ کنٹرول تمام متعلقہ اداروں کے پاس رہے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پارٹی صدر انیس قائم خانی اور اراکینِ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ سید مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ اس بلدیاتی دور کے اختتام پر عوام شکرانہ ادا کرے، پاک سرزمین پارٹی پچھلے چار سالوں سے ہر مسئلے کی پیشگی اطلاع اور اس کا حل بھی پیش کر رہی ہے۔ 2017 میں پریس کلب کے باہر 18 روز تک دن رات دھرنا دے کر بیٹھے رہے اور 16 نکات پیش کیئے جن پر اگر عملدرآمد ہوجاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ وزیر اعلیٰ بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عالمی لحاظ سے آج کا کراچی جو دنیا کے 4 بدترین شہروں میں شامل ہے وہ اُس کراچی سے بہتر ہے جو دس سال پہلے ورلڈ اکنامک فورم کی نظر میں دنیا کے 12 تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں شامل تھا۔ آج وزیر اعلیٰ معصومیت سے کہتے ہیں کہ اونچی عمارتوں کی وجہ سے مسائل کا انبار ہے۔ 2008 کے بعد سے کراچی میں ایک ایسا پتھر نہیں رکھا گیا جس کی فیس منظور کاکا کے ذریعے انکے بڑوں کو نہ پہنچی ہو۔ خود وزیر اعلیٰ نے 2013 میں اپنے دستخط سے ماسٹر پلان کو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ماتحت کیا۔ اگر شہر خراب بھی تھا تو حکمرانوں کا کام خبریں پڑھنا نہیں بلکہ مسائل حل کرنا ہے، 12 سالوں سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کچھ کیوں نہیں کیا گیا؟ اختیارات چاہیے تھے تو 2001 کا لوکل گورنمنٹ آرڈیننس ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا، گورنر سے میٹرک اور انٹر بورڈ سمیت یونیورسٹیوں کا اختیار لے لیا گیا۔ 4 سالہ بدترین کارکردگی کو چھپانے کے لیے ایم کیو ایم اب لسانیت کو ہوا دے رہی ہے، پیپلز پارٹی بھی 12 سالہ کارکردگی کو چھپانے کےلئے یہی کر رہی ہے تاکہ لوگ غصے اور جذبات کے غلبے میں سوچے سمجھے بغیر انہیں دوبارہ ووٹ دے دیں۔ نہ ایم کیو ایم صوبہ بنا سکتی ہے اور نہ پیپلز پارٹی والے سندھ کی دھرتی ماں کو بچا رہے ہیں لیکن دونوں عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جبکہ کراچی ڈوبا ہوا تھا تو پیپلز پارٹی کو مسائل کا حل ساتواں ڈسٹرکٹ بنانے میں نظر آیا۔ کیا ڈسٹرکٹ ملیر اور ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ آج ایم کیو ایم کو پیپلز پارٹی دوبارہ وزارتیں دے تو یہ صوبے کا نعرہ بھول کر پیپلز پارٹی والوں کو ٹوپی اور اجرک پہنا رہے ہونگے۔ صوبے کے نعرے سے پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ سندھی اور مہاجر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں۔ جلد بلدیاتی حکومتوں کی کارکردگی کے خلاف وائٹ پیپر جاری کریں گے۔