نالوں کی صفائی سے زیادہ کراچی کے حکمرانوں کے اذہان صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ مصطفی کمال
August 25, 2020
*مورخہ 25 اگست 2020*
(پریس ریلیز) نالوں کی صفائی سے زیادہ کراچی کے حکمرانوں کے اذہان صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ پچھلے کچھ دنوں سے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ آج کراچی دس سال پہلے والے کراچی سے بہت بہتر ہے۔ دنیا یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ بنسبت آج کے دس سال پہلے کا پاکستانی میڈیا زیادہ آزاد تھا، دس سال پہلے صرف پاکستانی میڈیا ہی نہیں بلکہ بین القوامی میڈیا نے کراچی کی ترقی کی مثالیں دیں۔ کراچی دس سال پہلے دنیا کے 12 تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں شمار ہوتا تھا، آج کراچی دنیا کے چار بدترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ خدا جانتا ہے کہ کون وزیراعلی سندھ کو پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دے کر گمراہ کررہا ہے۔ ایسے وزیر اعلیٰ کو کوئی نہیں سمجھا سکتا جو سوچ کر بیٹھا ہو کہ آج سیوریج کے پانی میں پاکستان کی ڈوبتی معاشی شہ رگ کراچی بہترین حالت میں ہے۔ کرپٹ، نااہل اور بد کردار حکمرانوں کی انتہائی ناقص حکمت عملی کے باعث کراچی ڈوب گیا ہے۔ کراچی کو صرف ایک شہر سمجھ کر نظر انداز کرنے والے ناعاقبت اندیش حکمران سمجھ لیں کہ کراچی کی تباہی پاکستان کی تباہی ہے۔ کراچی کوئی مقبوضہ کشمیر نہیں جہاں وفاقی حکومت اور ادارے صرف اخلاقی حمایت کے اعلانات کرکہ اپنی زمہ داریوں سے بری ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور پشاور کی طرح کراچی بھی پاکستان کا ناصرف حصہ ہے بلکہ پاکستان کا ریونیو انجن ہے، وفاقی حکومت اپنی پوری طاقت لگا کر کراچی کو بچانے کے لیے دور رس اقدامات کرئے۔
یہ بات چئیر مین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفیٰ کمال نے ڈسٹرکٹ ایسٹ کراچی میں مصروف پی ایس پی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہونے پر الوداعی پریس کانفرنس میں اختیارات اور وسائل کا رونا رو کر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے مئیر کراچی اگر 2017 میں پریس کانفرنس کرکہ استعفیٰ دے دیتے تو آج کراچی کے ہیرو ہوتے۔
ہم پچھلے چار سالوں سے قوم کو آگاہ کررہے ہیں کہ کراچی کے مسائل کا حل بلکل ممکن ہے جسکے لیے اختیار کی نہیں بلکہ کردار کی ضرورت ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کے ڈسٹرکٹ خودمختار ہونے کے بجائے وزراء اعلیٰ خود مختار بن بیٹھے ہیں جو اٹھارویں ترمیم کی روح کے برخلاف ہے۔ لحاظہ آئینی ترمیم کے زریعے بلدیاتی حکومتوں کی خودمختاری، اختیارات، کردار، زمہ داریوں، وسائل کی ترسیل، کام کرنے کے طریقے کار اور احتساب کا تعین ناگزیر ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے طرز پر پی ایف سی ایوارڈ کا اجراء لازم قرار دیا جائے اور جب تک صوبے ڈسٹرکٹ کو اختیارات اور وسائل کی منتقلی کو یقینی نہیں بناتے تب تک وفاق این ایف سی ایوارڈ جاری نا کرئے۔ کراچی کو ایک ڈسٹرکٹ اور اٹھارہ یا بیس ٹاؤن میں بحال کرکہ ایک مئیر کی یونیٹی آف کمانڈ میں دیا جائے۔ کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے ڈیڑھ سو ایکٹر کی تین زمینیں نکالی جائیں، وہاں انفراسٹرکچر فراہم کرکہ نالوں پر تعمیر غیر قانونی آبادیوں کے مکینوں کو وہاں ناصرف منتقل کیا جائے بلکہ انہیں ایک ایک لاکھ روپے بھی دیے جائیں۔ آج پاک سر زمین پارٹی کے پاس ایک کونسلر تک نہیں ہے لیکن کراچی گواہ ہے کہ شدید بارشوں کے دوران پی ایس پی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر عوام کو ناصرف ریسکیو کیا بلکہ ریلیف آپریشن بھی جاری رکھا۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کام کرنے کے لیے اختیار کی نہیں بلکہ کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔