کراچی اور حیدرآباد کے مسائل ہیں وہی ملک بھر کے مسائل ہیں، مصطفی کمال
February 4, 2020
*مورخہ 4 فروری 2020*
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں خواتین کے عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 1001 کارکنوں کی پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت کے موقع پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مہاجروں سمیت سندھی، پنجابی، پشتون اور بلوچوں کے پاس پی ایس پی کے بتائے ہوئے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ پی ایس پی نے مہاجر اور سندھی کارڈ کو ایکسپائر کردیا ہے۔ کشمیر کئی ماہ سے یرغمال ہے اور ایک بڑے جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جو کشمیری پاکستان کے جھنڈے میں لپٹ کر دفن ہونے کو باعث فخر سمجھتے ہیں وہ پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ حکومت نے کشمیر کا حل یہ نکالا ہے کہ جمعے کے دن کچھ دیر کے لیے ٹریفک لائٹس بند کر دی جائیں۔ اگر بھارت کشمیر کے لوگوں کو سرنگوں کر لے گا تو پاکستان کی طرف بڑھے گا۔ حکومت کشمیر کی روایتی اخلاقی حمایت سے آگے بڑھے۔ ملک کا وزیراعظم ہی اگر یہ بولے کہ کیا میں جنگ کر لوں؟ تو دشمن کا دل تو بڑا ہو ہی جائے گا۔ اگر جنگ مسلط کر دی جائے تو کر لینی چاہیے۔ مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ اب اردو بولنے والے مہاجر فیصلہ کریں کہ انکے لئے یہ زیادہ عزت کی بات یہ ہے کہ سندھی، بلوچ، پشتون اور پنجابی باہیں پھیلا کر پھولوں سے انکا استقبال کریں یا پھر یہ کہ وہ اپنے شہر ہی کی گلیوں میں بھی نہ جا پائیں، ایم کیو ایم نے مہاجر سیاست کر کے مہاجروں کو بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے، جو لوگ ہمیں سیٹوں کا طعنہ دیتے ہیں وہ ہمارے کمروں میں بھی بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتے تھے، تقسیم کی سیاست کر کے ووٹ حاصل کرنے والوں کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ یہاں یہ لیاقت آباد کی ایک گلی علیحدہ نہیں کر سکتے لیکن صوبے کے نام پر مہاجروں کو بیوقوف بناتے تھے اور اپنی جیبیں گرم کرتے تھے وہاں پیپلز پارٹی اس کا فائدہ اٹھا کر سندھیوں کو کہتی تھی روٹی، کپڑا اور مکان کا مت پوچھو، اگر سندھ کو توڑنا نہیں چاہتے تو ہمیں ووٹ دو، ہم نے سندھ کی تقسیم کے خلاف بات کر کے سندھی اور مہاجر کارڈ دونوں کو جلا دیا ہے۔ اب عوام دونوں سے انکی کارکردگی کا پوچھ رہے ہیں۔ یہاں کراچی میں بیٹھ کر بھی بول رہا ہوں، اللہ کے نام پر بننے والی اس ریاست میں ہمارے آباؤ اجداد حجرت کر کے آئے تھے اور سندھیوں نے انہیں گلے لگایا، یہ ہمارے آج کے انصار ہیں، ان سے ہمارا محبتوں کا رشتہ ہے۔ جو کراچی اور حیدرآباد کے مسائل ہیں وہی ملک بھر کے مسائل ہیں، تو سب کی بات کیوں نہ کریں، کراچی سے کشمور اور کشمور سے کشمیر تک ہر کسی کے مسئلے پر آواز اٹھائیں گے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے 390، پی ٹی آئی سے 180، پی پی پی سے 111، مسلم لیگ ن سے 57، تحریک نوجوانان پاکستان سے 26 اور 200 سے زائد غیر سیاسی افراد کی پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس موقع پر پارٹی صدر انیس قائم خانی اور اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ سید مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ سب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ایم کیو ایم اقتدار سے علیحدہ نہیں ہو گی بلکہ سارا ڈرامہ امین الحق کو وزارت دلوانے کے لیے کیا جا رہا ہے، جاتے جاتے انکی خواہش ہے کہ انہیں کچھ پیسے مل جائیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کمزور ہے اس لیے وہ کراچی کے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے میئر کو سیاسی رشوت دے رہی ہے۔ میئر کے پاس 36 ارب روپے ڈسٹرکٹ اے ڈی پی کے آ چکے ہیں جو تنخواہوں یا پیٹرول میں خرچ نہیں کیئے جا سکتے بلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ 2 کروڑ تک کا ایک پروجیکٹ بنایا جا سکتا ہے، اس حساب سے کم از کم 1800 پروجیکٹ بنتے ہیں، میئر کو گرفتار کر کے ان 36 ارب کا حساب لیا جائے۔ حکمران سیٹوں کو انعام نہیں امتحان سمجھیں، ایسی سیٹوں کا کوئی فائدہ نہیں جس سے عوام کے مسائل حل نہ ہوں۔ غلط طریقے یا کسی سے فریاد کر کے سیٹیں حاصل نہیں کریں گے بلکہ لوگوں کو جوڑ رہے ہیں، ایسی سیٹیں نہیں چاہیئیں جن سے عاقبت خراب ہو۔ پاکستان کے لوگوں کے دن پھریں گے، پی ایس پی کے جھنڈے تلے تمام مذاہب، مسالک اور زبانیں بولنے والے لوگ ایک ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا جھنڈا پہلے دن اٹھایا تھا ہمارے خوابوں کی تعبیر ہمیں روز ملتی جا رہی ہے۔ لاڑکانہ کے کامیاب جلسے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور غیر سیاسی افراد کی شمولیت کا سلسلہ تیز ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی کیس کا فیصلہ نہیں آرہا جس کو مرضی چاہے اٹھا لیتے ہیں۔ آٹے چینی سمیت اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ حکومت کا مسئلہ اہلیت نہیں بلکہ انہیں مسائل کا ادراک ہی نہیں ہے۔ اہلیت کی بات تو تب آئے گی جب کسی کو کچھ پتا ہو کہ کیا کرنا ہے۔ملک کی معیشت کو ٹھیک کرنے کا حل جو نکالا گیا وہ بھینسیں اور گاڑیاں بیچنا تھا۔ پھر کہا گیا کہ وزراء چائے نہیں پیئے اور سینڈوچ نہیں کہائیں تو معیشت بہتر ہو جائے گی۔ وزراء کا غیر سنجیدہ رویہ ہی اصل مسئلہ ہے۔ ایک وزیر ٹوئیٹر پر کراچی کا کچرا اُٹھانے نکلے تھے۔ انہیں لگا تھا 2 ہزار ٹوئیٹ کرانے سے کراچی کا کچرا اٹھ جائے گا جبکہ انکی وزارت سے متعلق اگر کچھ کہا جائے تو ٹاک شوز پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ آج ہمارے پاس کونسلر نہیں لیکن لوگ وزیراعظم کی پارٹی چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ یہ جہاد کسی فرد یا ادارے کے آسرے پر شروع نہیں کیا تھا بلکہ خوف خدا کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت کیلئے جدوجہد کی اور لوگوں کا ہمارے ساتھ جڑنا ہمارے نظریے کی جیت ہے۔ ہم عام آدمی کو لیڈر بنائیں گے تاکہ آگے پاکستان میں لیڈر شپ کا فقدان نہ رہے۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ وہ ملک کے آئین کے آرٹیکل 140 اے کی تشریح آئین میں لگوانا چاہتے ہیں تاکہ ہر وزیر اعلیٰ اس کی اپنے حساب سے تشریح نہ کرے، پی ایف سی ایوارڈ کو این ایف سی ایوارڈ اے مشروط کرانا چاہتے ہیں، اقتدار وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے دفاتر سے نکال کر گلی، محلوں اور گوٹھوں تک پہنچانا چاہتے جس میں عوام کی حکمرانی ہو۔