مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اس سانحہ کو پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن پوری قوم کے زخم تازہ ہیں۔
December 16, 2019
*مورخہ 16 دسمبر 2019*
(پریس ریلیز) پاک سرزمین پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ پاکستان ہاؤس میں سانحہ اے پی ایس کے شہداء کی یاد میں دعائیہ اجلاس کیا گیا۔ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اس سانحہ کو پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن پوری قوم کے زخم تازہ ہیں۔ سانحہ اے پی ایس سمیت سانحہ قصبہ علیگڑھ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ 16 دسمبر کو اس عزم کے ساتھ یاد کر رہے ہیں کہ ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں کبھی ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو۔ سانحہ اے پی ایس انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ تھا جہاں انسانیت شرمسار ہو گئی۔ کتنی بھی نفرت ہو معصوم بچوں کو دشمنی سے دور رکھا جاتا ہے۔ اے پی ایس واقع کو یاد کرکے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس موقع پر اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی و نیشنل کونسل اور مرکزی شعبہ جات کے زمہ داران موجود تھے۔ سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آج کے دن ہی پاکستان دو لخت ہوا تھا اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر میں خون کی ہولی بھی کھیلی گئی تھی۔ سانحہ قصبہ علی گڑھ کے بعد ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے30 سالوں میں لاکھوں جانیں لے لیں۔ اگر سانحہ قصبہ علی گڑھ نہیں ہوا ہوتا تھا تو اتنی خونریزی نہ ہوتی اور حالات مختلف ہوتے۔ اگر ان دنوں کو بھلا دیں گے تو دوبارہ وہ غلطیاں کریں گے جن سے ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مشرقی پاکستان جب علیحدہ ہوا تو اس سے پہلے انہوں نے چھ مطالبات پیش کیئے تھے۔ وہ مطالبات تسلیم نہیں کیئے گئے اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 30 سالوں کے بعد جو اٹھارویں ترمیم ہم نے کی ہے وہ وہی چھ نکات ہیں جو شیخ مجیب الرحمٰن اس وقت مانگ رہے تھے۔ بنگالیوں کا اس وقت مطالبہ تھا کہ صوبوں کو اختیارات دیئے جائیں جو آج اٹھارویں ترمیم کے زریعے دیئے گئے۔ وقت پر صحیح فیصلہ نہ لینے سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا اور آج ہمارا اہم ترین حصہ بنگلہ دیش ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ تاریخ سے سیکھنا ہوگا کہ حقوق مانگنے والوں کو وقت پر سننا ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ پاکستان بنانے والے تھے وہ بھی الگ نہیں ہونا چاہتے ہونگے۔ جب حقوق کی بات نہیں سنی گئی تو سقوط ڈھاکہ جیسا واقعہ ہوا۔ اب ہم کہتے ہیں ہم نے کراچی میں امن کر دیا ہے لیکن اسے برقرار رکھنے کے لیے جائز حقوق دینے ہونگے۔ کراچی سے کشمور تک لوگ احساس محرومی کا شکار ہیں۔ 70 فیصد ریونیو کما کر دینے والے شہر سے کچرا نہیں اٹھ رہا۔ کراچی کے نوجوانوں پر روزگار کے دروازے بند ہیں۔ جس پرائیوٹ نوکری پر گزارہ ہوجاتا تھا وہ دینے والی آرگنائزیشنز بھی بند ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں کوئی غلط آدمی اٹھا تو لوگ پھر اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ اللہ نے ہم سے کام لے کر اس آگ و خون کے سلسلے کو رکوا دیا ہے۔ یہ محرومی کسی ایک زبان بولنے والوں کی نہیں بلکہ کراچی میں بسنے والے ہر قومیت کے شہری کی ہے۔ اللہ پاکستان کو ہر بری گھڑی اور سانحہ سے بچائے۔ مل کر کام کریں گے تو انشاء اللہ پاکستان بنانے کے حقیقی مقصد کو حاصل کر لیں گے۔ آخر میں سانحہ اے پی ایس، سانحہ علی گڑھ اور سانحہ مشرقی پاکستان کے شہداء کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی۔
*شعبہ نشرو اشاعت*
*پاک سر زمین پارٹی*