Categories
خبریں

کراچی کی سیاست تحریر، اسد شیخ

کراچی کی سیاست تحریر، اسد شیخ

[email protected]
کراچی کے سیاسی موسم نے جوں ہی کروٹ لی تو پاکستان کی سیاست میں گویا بھونچال آگیاسب کی نظریں کراچی پر لگ گئیں کیونکہ ہمارے ملک کے سیاست دان کب سیاسی قلابازیاں کھاتے ہیں پتہ نہیں چلتا ہے ہمارے ملک کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی، کب اتحاد یہاں بنتے ہیں کب بگڑتے ہیں، ماضی کے حریف مفادات کے تحت گلے مل کر تمام گلے شکوے بھلا دیتے ہیں۔ ممکن نا ممکن ہو جاتاہے اورنا ممکن‘ ممکن ہو جاتاہے اسی طرح ایک ناممکن اور حیران کن واقعہ پیش آیا ہے جو جماعتیں۔ کل تک ایک دوسرے کی شدید مخالف تھیں وہ اچانک ایک ساتھ کراچی پریس کلب میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کرتی نظر آئیں دونوں جماعتوں کے سربراہان یعنی ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے مصطفیٰ کمال نے آئندہ انتخابات میں ایک ہونے کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ 2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک نئے نام، ایک منشور اور ایک نئے متفقہ انتخابی نشان کے ساتھ لڑیں گی، اس کا مقصد کراچی اور سندھ کے ووٹ بینک بالخصوص اردو بولنے والوں کے ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکنا ہے۔
ایم کیو ایم تا حال کراچی کی اکثریتی اسٹیک ہولڈر جماعت ہے جبکہ پی ایس پی کراچی شہر میں تیزی سے اپنے قدم جماتے دکھائی دیتی ہے اور لگتا یہی ہے کہ 2018کے انتخابات میں پی ایس پی بڑا سرپرائز دے سکتی ہے اسی کے پیش نظر ایم کیوایم پاکستان نے پی ایس پی سے اتحادکا فیصلہ کیا مگر یہ اتحاد چوبیس گھنٹے تک بھی نا چل سکا یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے کم مدت کا اتحاد کا ثابت ہوا جو صرف چوبیس گھنٹے ہی قائم رہا ماضی میں بھی انتخابات کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے الحاق اور اپنے مفادات کے خاطر اتحاد بنتے رہے ہیں لیکن شہر قائد کی اہمیت کے تناظر اور موجودہ منتشر سیاسی فضا میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی اس مفاہمت کے مثبت نتائج سامنے آسکتے تھے۔ اگر دونوں جماعتوں میں سیاسی معاملات پر کوئی مفاہمت آئندہ الیکشن کے تناظر میں ہوجاتی توکراچی کے سیاسی موسم پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے تھے مگر ایم کیو ایم نے سیاسی مفادات کے اور اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی خاطر اتحاد کے فیصلے کو واپس لے لیا۔ اس اتحاد سے شہر کو فائدہ ہو سکتا تھا مگر افسوس کہ یہ اتحاد حتمی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر عوام کی امیدوں کا اسی طرح خون کیا جاتا رہا تو ایک دن عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور پھر انقلاب آئے گا۔ حقیقی انقلاب ایک سوچ کے سیلاب یا سونامی جیسا ہوتا ہے جو آجائے تو پھر نہیں رکتا بلکہ تمام مفاد پرستوں اور ملک دشمن عناصر کو بہا لے جاتا ہے۔اب یوں لگتاہے پاک سر زمین پارٹی بہت تیزی کے ساتھ کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں اپنے قدم جمانے میں مصروف عمل ہے، سندھ کی عوام کی جانب سے پاک سرزمین پارٹی کو حوصلہ افزاء توجہ ملی ہے اگر حکمرانوں نے اپنا قبلہ درست نہیں کیا تو آنے والے الیکشن میں عوام پاک سر زمین پارٹی کے حق میں ووٹ دیکر کر اور اسے اکثریت سے کامیاب کراکر اپنا فیصلہ سنا دے گی