منشور
January 7, 2021
ترقی کا سفر
عزت، انصاف، اختیار

نوجوان

صحت

صحتبیرون ملک مقیم پاکستانی

انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ

خواتین کو بااختیار بنانا

غربت کا خاتمہ

توانائی

تعلیم

کرپشن اور احتساب
پاکستان کی ترقی اور خودمختای کے لیے بنیادی نکات
- اختیارات اور وسائل کی جمہوری تقسیم کا ماسٹر پلان
- قانون کی بالادستی، اس پر شفاف عمل درٓمد اور احتساب کے ذریعے نظم و نسق کی بہتری
- قومی مردم شماری کے ذریعے شفاف و پائیدار تعمیر وطن تکہ بجٹ کے ذرائع کو ایمان دارانہ اور شفاف طریقے سے ملک کے مختلف حصوں کو مختص کیا جا سکے اور معاشرتی اعتبار سے ذمہ داری اور فلاحی ریاست کی جانب سے حقیقی منصوبہ بندی عمل میں ٓسکے
- معاشی بحالی (Economic Revival) کا منصوبہ (صنعت کاری، زراعت، چھوٹی اور درمیانی صنعتوں (MSMEs) اور خدمت کے شعبے کی ترقی کے لیے)
- جدید و منظّم خطوط پر شہری و دیہی علاقوں کی ترقی
- داخلی انتشار کے شکار علاقوں میں دیرپا امن، معاشیات اور معاشرتی خوشحالی کا منصوبہ
- عالمی برادری کے ساتھ تعمیری و احترام پر مبنی تعلقات
مقامی حکومتی نظام کو با اختیار اور فعال بنانے کے لیے بنیادی قانون سازی کے ذریعے پاک سرزمین پارٹی ، مرکز صوبوں اور مقامی حکومتوں کے مابین اختیارات کی جمہوری تقسیم کا قوی ماسٹر پلان ، متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے جو مقامی حکومتوں پر عوام کا اعتماد بحال کرے گا اور پاکستان میں جمہوریت کی پائیداری اور مضبوطی کے لیے بھی اہم ثابت ہو گا۔ مضبوط مقامی حکومت کے نظام کے قیام اور فعالیت سے شراکتی جمہوریت (Participatory Democracy) براہ راست عام طبقوں اور ہر شہری کے دروازے تک پہنچے گی نیز تمام سماجی طبقات میں شفافیت متعارف کروا کر اچھی حکمرانی کو فروغ دیا جا سکے گا۔ ہمارا تجویز کردہ مقامی حکومتوں کا نظام نچلی سطحوں سے لوگوں کو با اختیار بنانے سستا اور تیز تر انصاف لوگوں کی دہلیز تک مہیا کرنے ، مالیاتی خودمختاری یقینی بنانے اور معاش کے منصفانہ مواقع بہم پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ لوگوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی قسمت کے فیصلوں میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ یہ نظام جائزے اور توازن کے مؤثر نظام کے ذریعے اس امرکویقینی بنائے گا کہ لوگوں کے مسائل حل ہوتے رہیں اور ان کے حقوق محفوظ ہیں۔ یہ نظام شراکتی یا نیچے سے اوپر تک کے ترقیاتی ماڈل کو متعارف کرواتا ہے جس میں شہری اپنے لیے بنائے گئے ہر لائحے (Program) کی منصوبہ بندی تشکیل اور عملدرآمد میں عملی طور پر شامل ہوتے ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی پائیدار اور خودمختار ادارے اور طریقہ کار تیار کرنا چاہتی ہے جو عام شہریوں بشمول غریبوں کی ضروریات کے ازالے کے لیے زیادہ سے زیادہ ذمہ دار ہو۔ ہم جانتے ہیں ایک پائیدار جمہوریت کے لیے یہ انتہائی اہم امر ہے کہ
- انتخابی طریقہ کار اور قانون سازی کے نظام کو مستحکم کیا جائے؛
- لوگوں کی انصاف اور انتظام عامہ تک رسائی بہتر بنائی جائے؛ اور
- ضرورت مندوں کے لئے بنیادی خدمات کی فراہمی کی بلند استعداد پیدا کی جائے۔
ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکومتی نظم ونسق میں ذمہ داری انتہائی اہم عنصر ہے۔ بہترین نظم ونسق اور اختیارات کی موثر و منصفانہ تقسیم کے ذریعے مقامی جمہوریت کے استحکام کویقینی بنانا پی ایس پی کے سیاسی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے۔ پی ایس پی ہرسطح پر نظم ونسق کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کی خود مختاری کویقینی بنائے گی تا کہ درج ذیل اقدامات کے ذریعے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیے جاسکیں:
- قامی جمہوریت کی آئینی اور قانونی شناخت کا تعین
- حکومتی شعبوں کے مابین شراکتیں
- مقامی فیصلہ سازی میں شریک ہونے کے مواقع
- مقامی حکومت کی شفافیت اور احتساب
- قانون سازی کے فریم ورک کی وضاحت
- وسائل کی مناسب اور منصفا نہ تقسیم
- خدمات کی منصفانہ فراہمی
- مضبوط مقامی حکومت اور بہترین نظم ونسق کی تعمی
پاک سرزمین پارٹی کا روڈ میپ پاکستان کو مسائل سے نجات اور حقیقی خودمختاری کا ایسا سیاسی نظام دینا ہے جہاں :
- ووٹ کی طاقت کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لاکر نظام عدل تشکیل دیا جائے؛
- جومعیشت کو کنٹرول کر کےنچلی سطح تک لا سکے
- جو بلا تفریق عوامی نمائندگی کا عکاس ہو اور جس کے ذر یعے عوام کی بہترین خدمت کی جا سکے۔ ہمیں یقین ہے،
یہ مجوزہ نظام شفافیت اور احتساب کو تقویت دے گا، سیاسی تناؤمیں کمی اور پالیسی پر ہموارعمل در آمدکو یقینی بنائے گا۔ ملک آج جس مقام پر کھڑا ہے وہاں سے اسے درست سمت پر لانے کا مشن نہ ا کیلے سیاست دان اور نہ کوئی ادارہ محض اپنے طور پر سرانجام دے سکتا ہے جب تک اس مشن کو تمام پاکستانی عوام کے مضبوط عزم کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔
پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پرڈالنے کے لیے پی ایس پی ٹیکس کے نظام میں اصلاحات متعارف کروانا چاہتی ہے تا کہ ٹیکس کی بنیادوں کو وسیع کیا جائے۔ ہماری مجوزه اصلاحات میں شامل ہیں:
- ز رعی ٹیکس کا نظام.
- ٹیکس سے بچنے کوششوں میں کمی؛
- غیر رسمی شعبے کے حجم میں کمی ؛
- مرکزی بینک کو اپنے امور انجام دینے کے لیے خود مختا ربنانا. اور
- بیور وکر یسی سمیت متعدد حکومتی اداروں میں ہرسطع پر بدعنوانی کامکمل خاتمہ۔
پی ایس پی غیر ملکی امداد اور قرضوں پرانحصارکم کرنے ،توانائی تیار اور تقسیم کرنے توالی کمپنیوں پر پابندیاں کم کرنے کے لیے کوشش کرے گی تاکہ یہ شعبہ سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بن جائے ۔معیشت کی تجد ید نو کے لیے پی ایسں پی سب سے پہلے درج ذیل چار انتہائی اہم حوالوں سے فوری اور تیز ترین اصلاحات متعارف کروانا چاہتی ہے۔
- ہر جگہ پھیلی ہوئی بدعنوانی میں کمی
پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے لازمی ہے کہ غیرضروری دفتر ی کاروائیوں کا خاتمہ اور احتساب کے عمل میں اضافہ کیا جائے۔ قومی احتساب بیورو کو ضروری آئینی اور قانونی اقدامات کے ساتھ مزید با اختیار بنانا ہوگا تا کہ بلاتفریق، بلاخوف اور انتقامی خدشات کے بغیر مقدمات کی جائز ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے تحقیقات معینہ وقت میں مکمل کی جاسکیں ۔ پی ایس پی چاہتی ہے کہ معلومات تک رسائی کے قانون کی آ گہی اورعمل در آمد یقینی بنایا جائے تاکہ عوام حکومت کی سرگرمیوں کا جائزہ لے سکیں اور تمام سرکاری وسائل کے درست استعمال کے بارے میں جان سکیں۔
- توانائی کی صنعت پر عائد پابندیوں میں کمی
آج کے زمانے میں سستی بجلی ایک بنیادی حق کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اس لئے پی ایس پی کا عزم ہے کہ عوام کوسستی اور بلاتعطل بجلی فراہم کی جائے۔ ہم توانائی کی پیداواری لاگت کم کر کے اس سطع پرلانا چاہتے ہیں جہاں اس کا فائدہ براہ راست غریب عوام کوپہنچے۔ حکومت کو توانائی دی گئی رعایت کم کرناچا ہیے اورتو انائی تیارکرنے اور اس کی تقسیم کاری سے منسلک کمپنیوں پر عائدپابندیوں میں کمی کرنا چاہیے تاکہ یہ شعبہ تو انائی کی قیمتیں زیادہ بہتر طور پرمتعین کرنے کے لیے مارکیٹ کی قوتوں کو آزاد کر سکے۔ اس سے توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے او تقسیم کاری میں سستی اور گردشی قرضے سمیت اس کے ساختی مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔ یہ بہت اہم ہے کہ حکومت غریبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اورانہیں نقصان پہنچائے بنا دانشمندانہ طور پرتوانائی پر دی گئی رعایات کم کرے۔ پی ایس پی معاشرے کے صرف کم آمدنی والے طبقات کے لیے اہدافی رعایات کا ارادہ کرتی ہے ۔
- غیرملکی قرضوں پر انحصار کم کرنا
پاکستان کو لازمی طور پرحکومت کے اخراجات میں کمی اور محاصل میں اضافے سے غیر ملکی فنڈنگ پراپنا انحصارکم کرنا چاہیے۔ پی ایس پی ٹیکس کے نظام میں مثبت اصلاحات متعارف کروانا چاہتی ہے جو
- ٹیکس کی بنیاد کووسیع کرے:
- تمام آبادی اور غیررسمی کاروبار سے منسلک شعبے کوٹیکس نظام کے تحت لائے؛
- مخصوص افرادیا اداروں کوٹیکس سے دیا گیا تمام تراستثنااور چھوٹ کا خاتمہ کرے اور
- قوانین کے نفاذ سے ٹیکس نادہندگی میں کمی، حکومتی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انفراسٹرکچر کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کا اندراج کرے۔
بلاشبہ پاکستان کے مالیاتی اور زرعی انتظام کے لیے اہم ترین ترجیجی اصلاح اسٹیٹ بینک آف پاکستان (مرکزی بینک) کومکمل طور پر با اختیار بنانا ہے تا کہ زرمبادلہ کا انتظام زیادہ پروفیشنل اور شفاف انداز سے کر سکے۔
- کاروبار اور مہارتوں کے لیے با اختیار سرمایه کار پروگرام
پاکستانی آبادی اور بالخصوص محنتی نوجوان جواب ملازمت کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہیں اگر ان کو مناسب ماحول اور درست رہنمائی ملے تو وہ انفرادی کمیونٹی اور قومی سطح پر معاشی خودمختاری اور استحکام میں حصہ لے سکتے ہیں۔ پی ایس پی قومی سطح پر معاشی ترقی کے لیے entrepreneurship اور مہارتوں کے لیے بااختیار سرمایہ کار پروگرام کا شعبہ قائم کرنا چاہتی ہے جو مہارتوں ، تربیت اور کاروبار کے فروغ کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرے گا اور اختراعات کی حوصلہ افزائی کر کے نئے کاروبار شروع کرنے اور ان کی ترقی کے لیے لوگوں کی مدد کرے گا۔ اس تجویز کردہ نئے شعبے میں متعلقہ سرکاری محکموں، مختلف وزارتوں ،ٹیکنو کریٹس، تعلیمی اداروں ، صنعت وتجارت سے ماہرین شامل ہوں گے۔ یہ بااختیار سرمایہ کار پروگرام entrepreneurial اور پائیدار لائحہ عمل تیار کرے گا تا کہ نوجوانوں کی مخفی صلاحیتوں کو جلادی جائے اور انہیں معیشت کے دھارے میں لاکرنمو اور ملک کی ترقی میں حصہ ڈالا جائے جس کے ثمرات معاشرتی سطح پر بھی ہوں گے۔
پاک سرزمین پارٹی پر یقین ہے کہ پاکستانی نوجوان ہی اس ملک میں تبدیلی اور مثبت اثرات لاسکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نوجوانوں کو معاشی فوائد کا ذریعہ تو سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں انسانی سرمایہ اورمعیشت و معاشرے میں شراکت دار نہیں سمجھا جاتا۔ آبادی کا55 فیصد سے زائدحصہ 25برس سے کم عمرنوجوانوں پرمشتمل ہونے کے ساتھ پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ نوجوان آبادی کا حامل ملک ہے لیکن یہ آبادی دنیا کے سب سے تیزی سے بڑھتے متوسط طبقے میں اضافہ کررہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے صارفی اخراجات (consumer spending) میں سال بسال 25 فیصد کی خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جبکہ یہ ایشیا کے مختلف حصوں کی اوسط 7 فیصد سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔
نیشنل یوتھ اسٹریٹجی اینڈ ایکشن پلان
نوجوان نسل کی اس نمایاں اور ابھرتی ہوئی بڑی تعدادکو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی اور معاشی شعبوں میں اپنے نوجوانوں کی جگہ بنانے کے لیے، پی ایس پی ایک نیشنل یوتھ اسٹریٹجی اینڈ ایکشن پلان تشکیل دینا چاہتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت سالان ڈھائی (21/2) سے تین (3.0) ملین روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی انتہائی ضرورت ہے تا کہ بے روزگاری کی حالیہ شرح سے نمٹا جا سکے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی نوجوان نسل کے بڑھنے کے آغاز پرہی اس کے لئے روزگار کاا نتظام کر چکے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیرممالک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روزگاری کی بلندی شرح سے متاثر ہوتی ہے اس لیے یہ تشدد اور سیاسی عدم استحکام کا ایک بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ قومی یوتھ اسٹریٹجی اینڈ ایکشن پلان کے ذریعے ہماری نوجوان آبادی کو احساس ملکیت دے، انہیں معاشی اعتبار سے نفع بخش بنا کر ان کو تعلیم کے ذریعے مفید طور پر معاشرے سے منسلک کرے، نیز معاشی ترقی اور روزگار کی فراہمی ممکن بنائے، اور وہ ایسےتمام اقدامات کرے جو طویل مدتی بنیادوں پر سود مند ثابت ہوں۔ ہمیں یقین ہے قومی یوتھ اسٹریٹیجی اینڈ ایکشن پلان نوجوان نسل کو تعلیم کے ذریعے اہل بنا کرملازمتوں اور مشاغل کے ذریعے انہیں با اختیار بنا کران کے ساتھ فائدہ مند شراکت کی تعمیر میں مددگار ہوگا۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی کثیر تعداد کو مناسب طور پر آگے بڑھایا جائے تو یہ صرف پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ بہترین افرادی قوت اور ذہین سرمائے کے طور پر اس پورے خطے کے لیے نفع بخش ہو سکتے ہیں۔
اسٹوڈنٹس یونین کی تجدید نو
پاک سرزمین پارٹی انتہائی خلوص سے اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی ضرور ہونا چاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس وقت قیادت کے شدید بحران سے گزر رہا ہے اور اس قحط الرجال کی اہم وجہ طلبا سیاست پر پابندی ہے۔ یہ مناسب ہوگا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں اور ایسی صورت حال دو بار پیدا ہونے سے پہلےہی ضروری اقدامات کرلیں۔ طلباتنظیمیں وقت کی ضرورت ہے لیکن ان کے دیگر امور کے ساتھ ساتھ ان کے انتخابات لازمی طور پر غیر جماعتی بنیاد پر ہونے چاہیں۔
اس حقیقت سے سب ہی بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے جو پوری معیشت کے لیے ہی نقصان کا باعث ہے۔ ایک مخلص اور قابل اعتماد سیاسی قیادت ہی پاکستان میں توانائی کے اس بحران کوختم کرسکتی ہے وہ قیادت جومعتبر اور پیشہ ورانہ انداز میں تیار کردہ روڈ میپ کے ذریعے عوامی حکومتی شراکت کے ماڈل کے ساتھ تمام متعلقہ فریقین کی ضروریات میں توازن کرتے ہوئے طلب اور رسد دونوں کے انتظام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، بالخصوص عظیم تر قومی مفاد میں عوام کی ذہن سازی کے ذریعے توانائی سے متعلق تمام شعبوں میں انتہائی ضروری مجموعی اصلاحات کرنا چاہتی ہو۔ پی ایس پی کا کامل یقین ہے کہ ہمیں بطور ایک قوم کے اپنی عادات واند از زندگی میں ماحول دوست اور پائیدار تبدیلیاں لانی جائیں۔
پی ایس پی توانائی کی صنعت کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ توانائی کے انتخاب کوترجیح دینا، عام صارف کے مفاد کے تحفظ کو یقینی بنانا متوازن انداز میں ہماری مقامی ضروریات کو پورا کرنا، ان اقدامات سے بیرونی شعبے پر بہت اثر مرتب ہوگا۔ پی ایس پی توانائی کی تیاری، اس کی تقسیم وسپلائی میں تسلسل اور قمیت کے تعین (biling) کے دوران پیش آنے والے کئی اہم مسائل کو ترجیحی بنیادوں پرفوری کم مدتی اور مستقل طویل مدتی بنیادوں پرعمل در آمد کروانا چاہتی ہے۔ پورے ملک کی توانائی کا تقریبا نصف، درآمد شدہ مہنگے تھرمل آئل سے تیار کیا جاتا ہے جبکہ بجلی کی تیاری میں تیل اور گیس پرانحصار کرنے سے صارفین کے لیے بجلی کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ پی ایس پی اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کرنا چاہتی ہے اور غیرمؤثر پاور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ،خراب انفراسٹرکچر بد انتظامی اور بجلی چوری کے باعث ضائع ہونے والی 25 فیصد بجلی بچانااس کی ترجیح ہے۔
یہ بہت اہم ہے کہ حکومت کو نہایت سمجھ داری کے ساتھ اور غریب صارفین کالحاظ کرتے ہوئے اور انہیں کوئی نقصان پہنچائے بغیربجلی پر دی جانے والی رعایت کوکم کرنا چاہیے۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ محض معاشرے کے کم آمدنی والے افراد کوہی مخصوص رعایت دی جائے، جیسا کہ ماضی میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے صارفین پر ایک سی رعایت کا اطلاق کر دیا جاتا تھا جو نہ صرف سمجھ سے بالاتر بات تھی بلکہ خود غریبوں کے ساتھ بھی نا انصافی تھی ۔ ضوابطی نگرانی کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ مقا بلے اور کامیابی کے مواقع پیدا کرنا، نیز صارفین کے لیے انتخاب کے زیادہ مواقع، قیمتوں کے رجحان میں کی اور صارف خدمات میں بہتری ہے۔
بجلی کی تقسیم کاری اور تیاری کی کمپنیز کوحکومتی پابندیوں سے نکالنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے، تا کہ اس شہر میں بجلی کی قیمتوں کے مزید بہت تعین کے لیے مارکیٹ فورسزکو آزادی حاصل ہو سکے۔ اس طرح بجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری بہت زیادہ بڑھے گی اور بجلی کی تقسیم کاری میں غیر مستعدی اور گردشی قرضوں سمیت دیگر ساختی مسائل بھی حل ہوں گے۔ میرٹ پرمبنی نجکاری سے نظام میں بدعنوانی کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ اس سے توانائی کے اداروں کو اختیار ملے گا کہ وہ بجلی کے بل جمع کرنے اور صارفین کو بجلی چوری یا عدم ادائیگی کی وجہ سے ذمہ دار ٹھہرانے میں بنا رکاوٹ کام کر سکیں گے۔ در آمد شدہ تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے پاکستان خے انرجی مکس کے دیگرو سائل جیسے تیز ہوا، بائیو ماس، شمسی اور پن بجلی میں خود کفالت بڑھانا اہم ہے۔ تمام قدرتی ذرائع سے توانائی کی تیاری کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری کوبھی خوش آمدید کیا جانا چاہیے۔
ہماری بجلی اور پانی کی ضروریات نے موسمیاتی تبدیلیوں، بجلی پانی کی مستقل کمی، صوبوں کے مابین عدم اعتماد اورز مینی سیاست کے ساتھ مل کر ہمیں انتہائی نازک صورتحال میں داخل کردیا ہے جہاں اب ہمارے پاس مزید وقت ضائع کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو کی سربراہی میں ایک با اختیارکمیشن قائم کرے جسے اس کے قیام کے 45 دن کے اندر اندر اپنی سفارشات پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض کی جائے گی۔ ان سفارشات پر ہنگامی بنیادوں پرعمل درآمد کروایا جائے گا، یہ ہی وقت کی اہم ضرورت اور ہماری بقاء کاوا حدحل بھی ہے کیونکہ ملک کو اس وقت ہماری زرعی، صنعتی اور شہری ضروریات کی تکمیل کے لیے مستقل اور سستی بجلی اور مناسب پانی درکار ہے۔
پاکستان کے پاس سورج اور تیز ہوا کی صورت میں توانائی کے لامحدود وسائل ہیں۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ وہ توانائی کے ایسے ہی متبادل اور سستے ذرائع تیار کرے گی ۔ پی ایس پی غیرضروری ضوابطی رکاوٹوں کو دور کر کے اور توانائی کے متبادل ذرائع کے استعمال سے نیپرا (نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی) کو ملنے والی بجلی تیاری کی گنجائش کی زیادہ سے زیادہ شرح 5 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنا چاہتی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی ایک انرجی انفراسٹرکچر فنڈ قائم کرنا چاہتی ہے۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ نجی سرمائے کوتوانائی کے انتہائی ضروری انفراسٹرکچر کے بہاو میں شامل کرنے کے لیے سرکاری ونجی شعبے کی شراکت سے ایک لائحہ عمل متعارف کروایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک انرجی انفراسٹر کچرفنڈ (Energy Infrastructure Fund) کے آغاز کی تجویز دیتی ہے جو انفرادی اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں پر مشتمل ہو، جس میں حکومت پاکستان اور مالی ترقیاتی ادارے بطورممتاز سرمایہ کار شامل ہوں ۔ یہ فنڈ تارکین وطن پاکستانیوں کے علاوہ عالمی کثیر فریقی اداروں کی اعانت کے لیے بھی کھلا ہوگا۔
مردم شماری شفاف و پائیدار تعمیر وترقی کا اہم ذریعہ ہے تا کہ بجٹ کو منصفانہ اور شفاف طریقے سے ملک کے تمام حصوں کے لیےمختص کیا جا سکے اور معاشرتی اعتبار سے ذمہ دار اور فلاحی ریاست کی جانب سے حقیقی منصوبہ بندی عمل میں آ سکے۔ حکومتی وزارتیں ،مختلف ایجنسیاں، محققین اور ماہرین تعلیم مردم شماری سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو زمین رجحانات (Demographics) کی منصوبہ بندی و تجزیے اور مستقبل کے امکانات کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے ہیں کسی بھی منصوبہ بندی کے موثر ہونے کے لیے آبادی کی تعداد کے بارے میں درست معلومات لازمی ہیں۔ پاکستان میں جہاں خدمات کے شعبے کو ہی مشکل سے اہم ترجیحات میں شمار کیا جاتا ہے وہاں مردم شماری تو سیاسی مقاصد کے باعث حکومتی ترجیحات میں سے انتہائی پست تر جیحات میں شامل ہے۔ آج پاکستان میں حکومتی بیانیے کے برعکس کہیں زیادہ شہر کاری ہو چکی ہے اور مردم شماری اس حقیقت کو بخوبی آشکار کرسکتی ہے کہ آبادی کا 50 فیصد سے زائد حصہ اب شہروں اور قصبوں میں آباد ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈیٹا کاپست معیار پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک زبردست رکاوٹ ہے۔
یہ کہنا نا انصافی نہیں ہوگا کہ مردم شماری میں مسلسل تاخیر بدنیتی اور منفی حربوں کی وجہ سے رہی ہے تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق اور محاصل کے ضمن میں دھوکا دیا جا سکے اور سیاسی عمل میں انہیں ان کی حقیقی نمائندگی سے محروم رکھا جائے۔ پاکستان بھر میں دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کی زمینی حقیقت کو خطرناک طور پر چھپاکر سیاسی تعطل پیدا کرنے کی یہ ناپسنددہ کوشش تھی۔ آبادی کی یہی شماریاتی حقیقت اس سے پہلے بھی کئی بار نظرانداز کی گئی ہے لیکن اب یہ ضروری تھا کہ بناکسی تاخیر کے مردم شماری کروائی جائے مستقبل کے این ایف سی ایوارڈ اور 2018 کے عام انتخابات کی بنیاد 2 دہائیاں پرانے اعدادوشمار پر رکھنا سخت نا انصافی ہے۔ انتخابی حلقوں کی کسی بھی حد بندی سے پہلے قومی مردم شماری کروانا انتہائی اہم ہے ورنہ یہ عمل غیرآئینی و غیر قانونی ہوگا۔
مردم شماری کے حالیہ حکومتی فیصلے اور مردم شماری کے عمل کی شفافیت کے حوالے سے بہت سے سوالات موجود ہیں۔ پی ایس پی چاہتی ہے کہ مردم شماری کامل digitize ہو اور ہرمکن طریقے سے اس میں شفافیت لائی جائے اس کے علاوہ مردم شماری نہ صرف آبادی کی فنی بلکہ ان کی معاشرتی و معاشی اور صحت و صفائی سے تعلق صورت حال کا بھی احاطہ کرے۔
ویں صدی میں ترقی پذیر دنیا کی توسیع 19 ویں صدی کی ترقی پذیر دنیا کی رفتار سے دوگنی ہو چکی ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ضروری ہے کہ تاریخی و تقابلی تناظر میں اس تیز شہر کاری کی نئی خصوصیات، اس کے محرکات اور آبادیاتی عوامل کے کردار کی روشنی میں اس کی نموکو جانا جائے ۔ دنیابھر میں بے قاعدہ شہری توسیع سے کچی بستیوں میں اضافہ ہورہا ہے جس سے ہاؤسنگ نقل وحمل اور انفراسٹرکچر کے نظام پربوجھ بڑھ گیا ہے اور معاشی نمورک گئی ہے جبکہ لاکھوں لوگوں کے لیے ماحولیاتی اور صحت کے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ ایک خصوصی ٹاسک فورس ترتیب دی جائے تاکہ شہری و دیہی ترقی اور تعمیر نو کے ماہرین، نمایاں پالیسی ساز، حکومتی افسران، مالی ماہرین سول سوسائٹی کے ارکان اور دیگر اختراع پردازوں کو اکٹھا کر کے ایک شہری ترقی و دیہی تجد یدنو کا قومی فورم تشکیل دیا جا سکے ۔ دیہی معیشت کو درست راہ پر لانے کے لیےنئی صنعتیں لگانا تا کہ مقامی آبادی کو ملاز متیں اور ان کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے اور موجودہ شہروں کی بے ہنگم توسیع کے بجائے پورے پاکستان میں نئے شہر آبادکرنا بھی پی ایس پی کے مقاصد میں شامل ہیں۔
زراعت ہماری معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے ملکی آبادی کا بڑا حصہ بلاواسطہ یا بلواسطہ طور پر زراعت پر انحصار کرتا ہے۔ اگر حکومت کا زرعی پیکج غریب کسانوں، وہ کسان جن کے پاس کاشت کے لیے مناسب قطعہ زمین بھی نہ ہو، انکی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تیارنہ کیا گیا تو ہرکسان کو ایک ترقی یافتہ کسان بنانے کا امید افزا خواب ایک خواہش سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اہدافی پالیسیاں بے زمین کاشت کاروں کو سامنے رکھ کرتیار کرنی چاہئیں جوان کے کاشتکاری حقوق، خواتین کے لیے زمین کی ملکیت کی یقین دہانی کرواتی ہوں اور زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرنے والے غریب دیہاتوں کے لیے کم ازکم مزدوری بھی مہیا کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہوں ۔ صوبے میں زرعی پیداوار میں ہونے والا معمولی اضافی دیہاتی غربت اور اس سے متصل محرومیوں کے مدتوں سے چلے آرہے مسائل میں تھوڑی کمی کرسکتا ہے لیکن اگر ماضی سے سبق لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ زرعی پیداوار میں اضا نے کاحتمی مطلب یہ نہیں ہے کہ بہت سے غریب کسانوں کی زندگیوں میں خودبخود بہتری آجائے گی۔
پاک سرزمین پارٹی کسان دوست پالیسیاں متعارف کروانا چاہتی ہے جو سماجی انصاف کے تناظر میں زرعی بحر ان کو دور کریں اور محدود سیاسی اعدادوشمار سے آگے بڑھ کراپنی توجہ کا دائرہ کا غریب دیہاتوں سے آگے بڑھائیں تا کہ غریب کی حالت میں بہتری لائی جا سکے۔ پی ایس پی کا عزم ہے کہ مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور کاشت کاروں کو دی گئی رعایات، زرعی قرضوں کی منصفانہ تقسیم اور ان کی زمین کے ر قبے اور سیاسی وابستگی سے قطع نظر پانی کی دستیابی یقینی بنایا جائے نیز کاشتکاری کو مشینی بنا کر منڈیوں کو بہتر کیا جائے۔ پی ایس پی نے زراعت کے شعبے میں ملکی اور برآمدی منڈیوں دونوں میں اضافی نموحاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے تا کہ خوراک میں خود کفالت اور تحفظ حاصل ہو سکے اور معاشرے کے تمام شعبوں کے مفاد کے لیے مجموعی معاشی نمو کی شرح بڑھائی جا سکے۔زرعی شعبے کی غربت میں کمی کے لیے 5 فیصد نمو بڑھانے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستانی معیشت کے 8-7 فیصد ہدف تک پہنچا جا سکے۔
- کارپوریٹ کا شکاری
کارپوریٹ کاشتکاری کی جہاں بہت سی خوبیاں اورفوائد ہیں جن سے انکار ممکن نہیں، وہیں اس کے نفی اثرات سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے تناظر میں کارپوریٹ کا شکاری کو بہتر طور پرسمجھ کر اور اپنے قومی مفاد اور زمینی حقائق کومدنظر رکھ کراپنانا چاہیے اور چھوٹے کاشت کاروں سمیت وسیع ترملکی مفادکو سامنے رکھتے ہوئے کارپوریٹ کا شکاری کا اپنا ماڈل وضع کرنا چاہیے۔
- زراعت و خوراک کا تحفظ
پاک سرزمین پارٹی زراعت اور خوراک کے تحفظ کے لیے ایک نصب العین اور مقصد متعین کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو پالیسی ہدایات کے مجموعے پرمشتمل ہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے زراعت اور دیہی ترقی کی ذمہ داری صوبوں پر ہے۔ پی ایس پی خوراک کے تحفظ اور بین الصوبائی مسائل سے متعلق اقدامات کا مجموعہ تیارکرے گی جو
- ملکی و بین الاقوامی تعاون
- مسائل کی جانب اسٹریٹجک تحقیق؛
- غذائی تحفظ کے کم سے کم معیارات
- بیجوں کی تصدیق؛ اور
- وباؤں اور جانوروں کی صحت سے متعلق امور کی نگہبانی کرتا ہو۔
- غذائی تحفظ اور زراعت کی پالیسی
پاک سرزمین پارٹی غذائی تحفظ اور زراعت کی پالیسی وضع کرنا چاہتی ہے جس کا فوکس ایک جدید مستعد اور متنوع زرعی شعبےکی تخلیق ہے۔ یہ پالیسی
- ملک کی آبادی کو مستحکم اور بنیادی خوراک کی رسائی یقینی بنا کر اس کی صنعتوں کو برآمدات کے لیے اعلی معیار کی مصنوعات فراہم کرے گی تا کہ دیہی آبادی کے لیے پرکشش آمدنی اور ملازمتیں یقینی بنائی جائیں،
- وسائل کا موثر اور پائیدار طریقے سے استعمال؛
- ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور کسی ہنگامی حالت میں تیز بحالی اور
- اس امر کویقینی بنائے گی کہ آبادی کے تمام حصوں کو ایک صحت مند زندگی گزارنے کے لیے مناسب غذائیت سے بھر پور اور محفوظ غذاتک رسائی حاصل ہو۔
پی ایس پی ضرورت مند دیہی آبادی کے استعمال کے لیے غلہ بینک قائم کرنا چاہتی ہے تا کہ کاشتکار غلے کی کمی کے دنوں میں قحط کا شکار نہ ہوں ۔ یہ غلہ بینک لوگوں کے لئے کم از کم دو وقت کی خوراک یقینی بنائیں گے۔ اس منصوبے کے لیے پی ایس پی ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) سے تکنیکی مدد لینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دیہی غلہ بینک کا منصوبہ دیہی خواتین کو با اختیار بنانے اور غذائی تحفظ کو بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہوسکتا ہے جو کمیونٹی کے تربیت یافتہ مردوخواتین کے زیر انتظام ہوگا۔
- پانی کی فراہمی اور پانی کے تحفظ کی حکمت عملی
پانی کے ذخائر تیار کر کے اسے محفوظ بنانے کے اقدامات میں پاکستان اب تک ناکام رہا ہے۔ آج پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کے ایک یونٹ سے دنیا کی کم ترین فصل پیدا کرتے ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، شہروں کا تیز پھیلاؤ اور آبادی میں اضافہ پانی کی دستیابی پرمزید اثرانداز ہورہے ہیں پانی کا تحفظ ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جو ملک کی ترقی کی راہ میں حائل بڑی دشواریوں میں سے ایک ہے۔2050ء میں انداز پاکستان کی آبادی 263 ملین سے زائد ہوگی اس لئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ اب اس بات پر سنجیدگی سے سوچا جائے کہ تیزی سے ختم ہوتے پانی کے ذخائر کے ساتھ زراعت، صنعت، اور انسانی استعمال کے لیے مناسب مقدار میں پانی کیسے فراہم کیا جائے گا۔ پاکستان میں پانی کا مسئلہ کثیرسمتی ہے، جو ایک دوسرے میں پیوست ہیں ۔ چناچہ نظام کا گہرا اور غائرتجز یہ ہی ان چیلنجز کا بہترین حل تیار کرنے کے لیے مددگار ہوسکتا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی تین اہم سطحوں پر پانی کے تحفظ کی حکمت عملی تجویز کرتی ہے:
- ملک کے اندر
- بین السرحدی ؛ اور
- ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں ۔
پی ایس پی چاہتی ہے کہ قومی اتفاق رائے سے پانی کے تحفظ کی واٹر پالیسی کو ہنگامی بنیادوں پر ملک کی خارجہ، داخلی اور معاشی پالیسیوں کا حصہ بنانا چاہیے۔ پی ایس پی کے مطابق اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے بیسویں صدی کے واٹر مینجمنٹ طریقوں کے ساتھ ساتھ میں اسمارٹ واٹر مینجمنٹ کی جدیدٹیکنالوجی (ICT) کا اطلاق کرنا ہوگا جس کے ذریعے پورے ملک میں بڑے درمیانے اور چھوٹے ڈیم ، پانی کے ذخائر ، رابط نہریں ، اور ایک دریا سے دوسرے دریا تک پانی کی منتقلی کے ذرائع تیار کیے جائیں گے۔ مزید برآں حکمت عملی کے طور پر اہم اور معاشی اعتبار سے ناگزیر بڑے ڈیم اور پانی کے ذخائر جو برقابی (ہائیڈل پاور جنریشن) کی صلاحیت کے حامل ہوں ان کے اثرات پرمکمل ماحولیاتی تحقیق ہونا چاہیے تا کہ آب و ہوا اور ماحولیات پر اس کے بوجھ کم کیا جا سکے۔ سیلابی اور بارانی کا شکاری کو ترجیح دی جائے تا کہ پانی کے ضیاع سے محفوظ رہا جائے اور اس کی دستیابی کو پورے سال بالخصوص، پانی کی قلت کے علاقوں میں ممکن بنایا جائے۔ اسی طرح خشک سالی کا مسئلہ، جیسا کہ تھر میں موجود ہے، اسے بھی تھوڑی توجہ اور منصوبہ بندی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
- کسان دوست کارڈ
پاک سرزمین پارٹی ایک کسان دوست کار ڈمتعارف کروانا چاہتی ہے جو 25 ایکڑ تک زمین کے حامل کسانوں اور ذمینداروں کی فلاح و بہبود کے کام آئے گا۔ کسان دوست کارڈ کے حامل افرادکو یہ سہولیات حاصل ہوں گی:
- وہ بینک سے بلاسودقر ضے لے سکیں گے.
- کھاد، ادویات بیج پر کسانوں کوخصوصی رعایت دی جائے گی.
- ٹیوب ویل کے لئے بجلی اور ڈیزل پرخصوصی رعایت دی جائے گی.
- کسان دوست ٹریکٹر اسکیم کے تحت بلاسودٹر یکٹر فراہم کیے جائیں گے؛ اور
- سیلاب یا کسی دوسری قدرتی آفت کی صورت میں حادثاتی بیمے کے ذریعے کسان اور اس کے خاندان کے علاج معالجے پر خصوصی رعایت دی جائے گی۔
تعلیم اور صحت ترقی کے بنیادی اصول ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں موثر اوریکساں تعلیمی نظام کی بھی کمی ہے۔ حکومتوں کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت ، دہرے نظام تعلیم، غیرتربیت یافتہ تدریسی عملے اور شکستہ حال اسکولوں کی عمارتوں کے نتیجے میں ہماراتعلیمی معیار اور افرادی وسائل شدید بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کی یہ خلیج ملک کے لیے شدید معاشرتی و معاشی مسائل کی وجہ ہے۔ پی ایس پی (ابتدائی تا دسویں جماعت تک ) یکساں و جدید نصاب تعلیم متعارف کروانا چاہتی ہے جس میں ہائر ایجوکیشن پر سمجھوتا کیے بغیر ایک نئے اقدام کے طور پر اسکول کے نظام اور نصاب پر زور دیا جائے گا تعلیم پر ملکی بجٹ کی مایوس کن شرح2.6 فیصد سے بڑھا کر جی ڈی پی کا کم ازکم 4 فیصد مختص کرنابھی پی ایس پی کے ارادے میں شامل ہے۔ غربت کے مسئلے کوحل کرنے کے لیے اسکول جانے والے بچوں کے لیے یونیورسل غذائیت کا منصوبہ شروع کروانا تاکہ والدین کو ترغیب دی جا سکے اور بچوں کے اسکول میں داخلے اور حاضری کو دلچسپی کے ساتھ یقینی بنایا جائے؛ تدریس کے لیے مراکز فضیلت (centers of excellence) کا قیام اور اس پلیٹ فارم سے اساتذہ کی استعدادکاری کے منصوبے متعارف کروانا، نیرنگرانی کے اچھے نظام اور بلا تفریق سخت احتساب کے ذر یعے گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکولوں کا علاقائی مسئلہ حل کرنا بھی پی ایس پی کے اہداف میں شامل ہے۔
پاک سرزمین پارٹی تمام صوبائی اور مقامی حکومتوں کے ذریعے ایک باہنر کمیونٹی کالج (Vocational Community Collage) کا منصوبہ متعارف کروانا چاہتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت کمیونٹی کالجوں کے ذریعے معیاری اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جائے گی جس میں تکنیکی مہارتوں کی تعمیر ، قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ، انگر یز ی و دیگر زبانوں کی مہارتوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ پروفیشنل انٹرن شپ، دوران ملازمت تربیت اور کمیونٹی سے متعلق سرگرمیوں کے مواقع بھی فراہم کرے گا۔ یہ تربیت مکمل کرنے کے بعد اس کے شرکاء نے ہنر اور مہارتوں کے ساتھ معاشی ترقی اور بہتر انتظامی صلاحیتوں اور مو ثرنظم ونسق کی مہارتوں کے اطلاق سے پاکستان کی ترقی میں حصہ لے سکیں گے۔ ہمیں امید ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کے لیے انفرادی اور بحیثیت مجموعی اس پورے خطے اور عالمی سطح پر بھی مہارت یافتہ افرادی قوت تیارکرنے اور فراہم کرنے والا پروگرام بن جائے گا۔
خواتین پاکستان کی نصف آبادی پرمشتمل طبقہ ہے جو نہ صرف بری طرح نظرانداز کیا گیا بلکہ معاشی ، معاشرتی ،سماجی، نفسیاتی، علمی، ادبی غرضیکہ ہرسطح ہر جہت میں اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ خواتین پر مظالم کادر از سلسلہ بھی ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ خواتین کوگھروں میں مظالم اور استحصال کا سامنا ہے، ان پر عائد غیرانسانی پابندیاں اور ان کے حقوق سلب کر لینا عام ہے۔ گھریلو تشد د مختلف سماجی طبقات میں کاروکاری، ونی کرنے ،Child Marriages اس استحصال کی سادہ مثالیں ہیں ۔تعلیم یا فتہ اور حقوق و فرائض سے آگاہ خواتین نہ صرف آج ہماری قوم کی ضرورت ہیں بلکہ مستقبل میں بھی ہماری نسلوں کے سدھار اور ہماری عظمت کا شعور اجاگر کرنے میں خواتین کے کردار سے صرف نظر ممکن نہیں ۔ موجودہ زمانے میں خواتین زندگی کے ہر میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ وہ گھروں میں ،فیکٹریوں، دفتروں اور تعلیمی اداروں میں ہر جگہ اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری خاندانی زندگی، ہماری روایات، اور مذ ہبی فرائض وسماجی رسوم واصولوں کی امین بھی ہیں ۔ خواتین کے حقوق کے ضمن میں ان کے لیے عزت نفس کی یقین دہانی، معاشی خودمختاری، جنسی استحصال سے تحفظ حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پرملازمتیں ، مردوں کے برابرتنخوا ہیں، پسند کی شادی کا حق، جائداد رکھنے کاحق اور تعلیم کاحق شامل ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی مقامی حکومتوں کی سطح پرخواتین حقوق کمیٹیوں کے قیام کی خواہاں ہے۔ یہ کمیٹیاں علاقائی سے پر خواتین کی شکایات پر غور کریں گی اور ان کوگھر اور گھر سے باہر کی بھی قسم کے استحصال کے خلاف تحفظ فراہم کریں گی۔ اس سلسلے میں یہ کمیٹیاں مقامی خواتین پولیس اسٹیشنز کے تعاون سے قانونی چارہ جوئی بھی کرسکیں۔ پی ایس پی خواتین کے مسائل کے سلسلے میں راز داری کے اصول پرعمل کرنا چاہتی ہے تاکہ خواتین پورے اعتماد سے اپنے مسائل پر بات کرسکیں۔ پی ایس پی خواتین کے حقوق کے لیے اب تک کی جانے والی قانون سازی کو اہمیت دیتی ہے اوران پرعمل درآمدکا ارادہ رکھتی ہے نیز مستقبل میں بھی خواتین کے حقوق محفوظ کرنے کے لیے قوانین تشکیل دینے کی خواہشمند ہے۔
- قومی سطح پرایسے سیمینار یا ورک شاپس منعقد کئے جائیں جس کے ذریعے خواتین اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکیں۔
- موجوده تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے صنفی بیداری کو فروغ دیا جائے اورتعلیم کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنایا جائے۔
- خواتین کی سیاسی شمولیت کو ممکن بنانے کے لئے موجودہ سماجی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن میں خاندان کی ذمہ داری، تحفظ اور عملی میدان میں آنے کے خوف کے حوالے سے موجودہ خدشات کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
- تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے تربیت، پیشہ وارانہ ترقی ، ان کی صلاحیتوں اور ہنرکوا جاگر کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
- قومی سطح پرایسی تربیتی پروگرام منعقد کرنے چاہئیں جن کے ذریعے خواتین مارکیٹنگ کے رجحانات کے حوالے سے معلومات حاصل کرسکیں اور اپنی تیار کردہ مصنوعات کو صارف تک پہنچاسکیں۔
- وہ خواتین جوتعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، ان کے لئے تعلیم بالغان کا انعقادان کے علاقے میں ہی کیا جائے تا کہ وہ اپنی گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کر سکیں اور خواندگی کی شرح کوبھی بڑھایا جا سکے۔
کسی قوم کی عظمت اس کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کے پورا ہونے کے پیمانے پر ناپی جاتی ہے تعلیم کی طرح صحت پربھی پاکستان میں محض زبانی کلامی توجہ دی جاتی ہے۔ ملک کے جی ڈی پی کا صرف0.9 فیصد ہی صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کر کے بنیادی حفاظتی اقدامات کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال کاعمل بہتر بنائے گی۔ پی ایس پی کا پختہ یقین ہے کہ اگر اہل پاکستان کو بدعنوانی اور اقربا پروری کی روک تھام کر کے باعزت اور مؤثر طریقے سے صحت کا معیاری نظام دیا جائے تو حالیہ صحت کے لیے مختص بجٹ کا بھی استعمال قدرے بہتر طور پر کیا جاسکتا ہے۔
2012ء میں 638 دیہی مراکز صحت میں کیے گئے سروے سے پتا چلا کہ 276 (43فیصد ) مراکز میں کوئی خاتون طبی افسر موجود نہیں تھی جبکہ 222 مراکز میں محض ایک میڈیکل افسر موجودتھی ۔ دیہی علاقوں میں تقریبا55 فیصدز چکیاں روایتی دائیوں یا رشتے داروں کی مدد سے انجام دی گئیں۔ تحصیل ہیڈ کوارٹرز اور سول اسپتالوں کے اعداد وشمارمز ید حیران کن تھے کل 280 اسپتالوں کا سروے کیا گیا جن میں سے 206 اسپتالوں میں کوئی لیڈی ڈاکٹریاماہر امراض نسواں موجود نہیں تھی۔
پاک سرزمین پارٹی ایک نیشنل پر یونیشن اسٹرٹیجی (National Prevention Strategy) متعارف کروانا چاہتی ہے جو ہماری زندگی کے تمام پہلوؤں پرمحیط ہو۔ اس پالیسی میں ہم کہاں اور کیسے رہتے ہیں، کام کرتے ہیں یا کھیلتے ہیں سب امور شامل ہیں۔ ایک صحت مند قوم کی تخلیق میں ہم سب بشمول حکومت ، کاروباری حضرات تعلیم دان صحت کے ادارے ،کمیونیٹیز اور ہر پاکستانی کا کردار اہم ہے۔ ہمارے ملک میں احتیاط پر کیا جانے والا زیادہ سے زیادہ اصرار تمام پاکستانیوں میں بیماریوں اور حادثات میں خاصی حد تک کمی کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں بہتر صحت ، طویل العمری، اور آنے والی نسلوں کے لیے بہتر معیار زندگی حاصل ہو سکتا ہے۔
صحت اورتعلیم سب کے لیے ترقی کا بنیادی اصول ہے۔ پی ایس پی پاکستان کے تمام مستحق شہریوں کے لیے یونیورسل صحت کی کوریج متعارف کروانا چاہتی ہے۔ صحت کی انتہائی پست خدمات کی وجوہات پر نتیجہ خیز بحث کرنا اور صحت کی معیاری خدمات دینے میں حکومت کے اہم کردار کو سامنے لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پی ایس پی چاہتی ہے کہ عوام کی صحت بہتر بنانے کی ذمہ داری کئی وجوہات کی بنا پرمقای حکومتوں کو تفویض کی جائے کیونکہ مقامی حکوتیں
- آبادی پر فوکس رکھتی ہیں.
- مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنی خدمات کو موزوں شکل دینے کی اہلیت رکھتی ہیں.
- صحت کے اہم سماجی عوامل پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتی ہیں. اور
- صحت کے حوالے سے عدم مساوات کو دور کرنے کے قابل ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی دنیا کے چھٹے سب سے بڑی آبادی والے ترقی پذیر ملک کی صحت کی وہ پالیسی بنانے کی پرجوش حمایت کرتی ہےجس کی ترجیحات لاکھوں لوگوں کی ضروریات پرمبنی ہوں ۔ ہم ایسی پالیسی کے ساتھ ہرگز نہیں ہوں گے جس کی ترجیحات باتجاویز سیاسی بنیادوں پر ہوں ۔ پاکستان کی ہیلتھ پالیسی کا ہدف وہ لاکھوں شہری ہونے چاہیں جو بنیادی صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پیار ہوں میں مبتلا ہیں،تکلیف کا یا اموات کا شکار ہیں جیسے ای پی آئی (بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کا منصوبہ) اور صاف پانی کی عدم دستیابی ۔ میڈیکل سائنس میں میرٹ اور قابلیت کو بنیاد بنایا جائے۔ پاکستان کے صحت کے اعدادوشار بحیثیت مجموئی افسوس ناک اور اس سلسلے میں ہم انہی ملتے جلتے مسائل کے خلاف سارک (SAARC) کے حاصل کردہ نتائج سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ بیان کردہ مسائل کے حل کے لیے ہمیں کوئی پیچیدہ محنت کا نظام بنانے کی ضرورت نہیں بس درج ذیل بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ پی ایس پی کا یقین واثق ہے کہ حکومت کی اعانت سے چلنے والی Universal Healthcare کو سیاسی ترجیح بنا لینے سے پاکستان میں صحت قابل حصول بھی ہوگی اورکم قیمت بھی۔
صحت کے حوالے سے پی ایس پی کی سفارشات اور اہداف درج ذیل ہیں:
- آبادی کے بڑے حصے کی صحت سے متعلق ضروریات عوامی بیمہ اسکیموں (Public Insurance Schemes) کی فراہمی سے بہتر طور حل کی جاسکتی ہیں۔
- نرسوں سے لیکر سربراہان شعبہ تک نگہداشت صحت سے منسلک سب افرادکولازمی سالانہ تربیت وتر قی فراہم کر کے ان میں احساس ہمدردی اور باہمی مہارتیں (Interpersonal Skills) بہتر بنانا اور مریضوں کو مطلوبہ توجہ اور بہتر دیکھ بھال فراہم کرنا۔
- فعال بی ایچ یو( بنیادی صحت کے یونٹ)، آرایچ سی (دیہی صحت کے مراکز)، اور ٹی ایچ کیوز (تحصیل ہیڈ کوارٹر ہاسپٹلز) اورڈی ایچ کیوز (ڈسٹر کٹ جزل ہاسپٹلز)
- Tertiary اسپتالوں کو باختیار اور خودمختار بنایا جائے، سرکاری شعبے کے سربراہان شعبہ کوبطورفل ٹائم پروفیسر کام کرنے کی ترغیب دی جائے اور اس کے لیے انہیں مارکیٹ پرمبنی مشاہروں کے مطابق اچھی تنخواہیں دی جائیں۔
- میڈیکل کالجز میں میرٹ کو بنیاد بناکر تمام تدریسی عملہ کی اسی اصول پر بھرتی کرنا۔ وہ میڈیکل یو نیورسٹیاں جو معیار پر پوری نہیں اتریں ان کومتنبہ کرنا اور موثر طبی، تدریسی اورتر بیتی نظام قائم کیا جائے۔ اعلی تعلیم وتربیت کے لیے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی۔
- اسپتالوں، بنیادی صحت کے مراکز ، بالخصوص دیہی علاقوں میں تجربہ کاراور تربیت یافتہ ڈاکٹرز اور نرسوں کی تعیناتی یقینی بنائی جائے گی۔نگرانی کے فعال نظام کے ذریعے عملے کی غیر حاضریوں میں کمی لائی جائے گی ۔ خواتین کی صحت کے مراکز میں خواتین ڈاکٹرز اور نرسز کی لازمی اور مناسب تعیناتی بھی پی ایس پی کے منصو بہ صحت کا ایک اہم جز ہے۔
- پی ایس پی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینل کونسل، پاکستان نرسنگ کونسل، اورصوبائی صحت بورڈ کو مضبوط اور خودمختار بنانے کی تجویز دیتی ہے۔
- پورے ملک میں ہنگامی بنیادوں پرڈاکڑز، دائیوں/ مڈوائف، نرسوں اور ہیلتھ ورکرز کی تربیت کا اہتمام۔
- نجی شعبےمیں قائم اسپتال، میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی، تاکہ وہ بھی نظام صحت کی بہتری میں حکومت کے ساتھ شراکت داری میں اپنا کرداراداکرسکیں۔
- صحت کی نگہداشت کے متبادل نظام پر بحث کا آغاز کرنا۔
- دیہی صحت کاپیکیج شروع کرنا جس میں سرکاری شعبے کے ملازمین کے لئے تر غیبات کے ساتھ ساتھ دیہی منصوبوں میں کام کرنے والوں کے لیے اسپیشل پیکیج دیا جائے۔
- پی ایسں پی ایک فزیشن اور فارمہ کمیشن قائم کرنے کی تجویز دیتی ہے جوصحت کی دیکھ بھال کرنے والوں اور دوا سازی کی صنعت میں غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے حل اور ان کے خاتمے کے لیے تجاویز فراہم کرے گا۔
پاک سرزمین پارٹی باقاعدگی سے شفاف طریقہ کار پر مردم شماری کروانے کے حق میں ہے۔ مردم شماری صحت اور سماجی شعبے میں مضبوط منصوبہ بندی کےحق میں اور مجرمانہ طور پرلوگوں کو ان کے حقوق اور وسائل سے محروم رکھنے والوں کے لیے کاری ضرب ہوسکتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مردم شماری کا ڈیٹارہائشی حالات کے بارے میں اہم معلومات دیتا ہے جوصحت کی راہ میں ساری رکاوٹوں کے بارے میں فیصلہ کن معلومات فراہم کرتا ہے۔ معذور افراد کے بارے میں گراں قدر معلومات ان کے لیے بہتر اقدامات کی منصوبہ بندی میں مددگار ہوسکتا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی احتساب ، دیانت اور شفافیت کے رواج کوفروغ دے گا۔ اب تک کسی حکومت نے بدعنوانی اور اس کے تصل جرائم سے نمٹنے کے لیے موثر قانون سازی نہیں کیا ہے۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ کمزور پڑنے قانونی فریم ورک کو مضبوط بنایا جائے جونئے طریقوں سے بڑھتی ہوئی بدعنوانی کو روکنے میں ناکام ہے۔ پی ایس پی احتساب کے قوانین میں ترامیم متعارف کروانا چاہتی ہے تا کہ اداروں کو مضبوط و با اختیار بنایا جا سکے۔ پی ایس پی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور دانشوروں کو یکجا کرنا چاہتی ہے تا کہ قانونی اور انتظامی فریم ورک میں بہتری کے لیے مطالبات کو پروان چڑھایا جائے۔ ہماراہدف بےرحم احتساب شروع کرنا ہے کیونکہ یہ ملک میں پھیلی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستانی معیشت میں بدعنوانی کی یومیہ مقدار 133 ملین ڈالر ہے جس میں 66ملین ڈالر صرف ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے۔ پی ایس پی تمام سرکاری اداروں کے لیے ایک شفاف اور کھلا نظام اور اقدامات کا درج ذیل سلسلہ متعارف کروانے کا مقصدرکھتی ہے جو بدعنوانی پرقابو پانے اور اسے روکنے میں مددگار ہوں گے۔
- معلومات کی آزادی کا قانون تمام شراکت داروں کو شامل رکھتے ہوئے منظور کروانا۔
- جہاں ممکن ہو صوابدیدی اختیارات کوختم کرنے کے لیے قوانین اور اصولوں میں ترامیم کرنا۔
- پروکیورمنٹ قوانین اور ضوابط کومزید بہتر بناتے ہوئے ان کے عمل درآمدکویقینی بنانا۔
- مفاد عامہ کے انکشاف کا قانون پاس کرنا جس سے بدعنوانی اور دیگر نا جائز اقدامات کا پردہ فاش کرنے والوں کے تحفظ کویقینی بنانا۔
- زمین پر ناجائز قبضہ ہماری سوسائٹی میں تیزی سے بڑھتا ہوا خطرہ ہے اس قسم کے مافیا اور افراد سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین کو مضبوط بنانا اور ان کی روک تھام کے لئے بڑے جرمانے اور اثاثوں کی ضبطی جیسی کڑی سزائیں عائد کرنا۔
پاک سرزمین پارٹی کی مقامی حکومتوں کو اختیار کی منتقلی کی مرکزی فلاسفی سرکاری شعبے میں پھیلی ہوئی کثیر بدعنوانی کا خاتمہ اور بدعنوان عناصر کو پکڑنا ہے جس کے لیے حقیقی احتساب کے نظام میں لوگ اپنی مقامی کونسلوں کے ذریعے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پی ایس پی چاہتی ہے کی موجودہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی افادیت کے ثمرات کو پاکستان او پاکستانیوں تک منتقل کیا جائے۔
پاک سرزمین پارٹی غربت کے خاتمے کا پروگرام متعارف کروانا چاہتی ہے جوریاست کی طرف سے پسماندہ طبقات کے لیے تیار کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے بے روز گارنوجوانوں کو ملازمتوں کے وسیع مواقع فراہم کر کے غربت میں خاتمے کی کوششیں کی جائیں گی جس سے صنعتوں، کاروبار، اور زراعت کو فروغ ملے گا۔ ملکی آبادی جس کا غالب حصہ نوجوانوں پرمشتمل ہے اس میں خصوصی سیاسی بصیرت، پرمغز منصوبہ بندی اور ماہرین کی طرف سے غور وخوض اور باریک بینی سے ترتیب دیے گئے وسائل پر مبنی ترقی کے قومی پروگرام کے ذریعے ہی غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس پروگرام کے تحت وسائل پر مبنی ترقی کو مؤثر اور پائیدار بنانے کے لیے متعلقہ پالیسیاں بنائی جائیں گی جو پاکستان کی ترقی پذیر معیشت اور بنیادی پیداواری سرگرمیوں کے اہداف کو پورا کریں گی تا کہ ان کی مسابقت میں بہتری، برآمدی صلاحیت کا حصول ، وسائل کے ضیاع یا استحصال میں کمی اور منافعوں اور محاصل میں اضافہ ہو سکے۔ غربت کے خاتمے کے لیے بنائی گئی پالیسیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غریب آبادی کے علاقوں، باخصوص دور دراز اور پسماندہ دیہی علاقوں میں غربت کو اپناہدف بنائیں۔ پی ایس پی چاہتی ہے کہ طویل مدتی معاشی ترقی کے لیے مالی منافعوں میں اضافہ اور بنیادی پیداواری سرگرمیوں سے حاصل کیے گئے فنڈز لازماً دوبارہ صنعتی سرگرمیوں، انفراسٹر کچر ،صحت کی خدمات، تعلیم اور مہارتوں میں استعمال کیے جائیں۔
پاکستانی ہنرمند، سخت محنت اور جفاکشی کی نعمتوں سے مالا مال ہیں ۔ اگر انھیں اپنی ریاست اور سماج کی طرف سے احترام اور درست رہنمائی ملےتویہ معاشی خودمختاری اور استحکام کے لیے انفرادی ،کمیونٹی اور قومی سطع پر بڑی حد تک حصہ لے سکتے ہیں۔ پی ایس پی غربت کےخاتمے کی قومی پالیسی اور حکمت ملی (National Social Protection Strategy) متعارف کروانا چاہتی ہے جو پانچ بنیادی اصولوں مبنی ہوگی۔
- موجودہ انکم سپورٹ پروگرام کو بہتر بنا کرانتہائی غریب افرادکو خصوصی الا ؤنسز فراہم کئے جائیں گے تا کہ وہ غربت کا مقابلہ کرسکیں۔
- نہایت غریب افراد کے لیے ملازمتوں اور چھوٹے قرضوں کے ذریعے ذاتی کاروبار کے مواقع پیداکرنا۔
- مفت یا برائے نام قیمت پرمستحق خاندانوں کوغذائی مددفراہم کر کے ان کے غذائی تحفظ یقینی بنانا۔ پی ایس پی بھوک خاتمہ پروگرام پورے ملک میں شروع کروا کر، خط غربت سے نیچےرہنے والے لوگوں کاماہانہ فری راشن دیاجانا بھی اس میں شامل ہے۔
- غریب لوگوں کوتعلیم، پیشہ وارنہ تر بیت، اور صحت کی خدمات فراہم کر کے ان میں غربت سے مقابلے کی استعداد پیدا کرنا۔
- کم آمدنی والے افراد کوبجلی، گیس اور پیٹرول پرخصوصی رعایت دی جائے گی۔
جس کثیرالجہتی داخلی عدم تحفظ کے ماحول میں آج ہم رہ رہے ہیں اس کی درستگی لازمی طور پر بیرونی مداخلت اور اندرونی سہولت کاروں کی موجودگی اور گٹھ جوڑ کے خاتمے کے بغیرممکن نہیں ۔ ہماری داخلی کمزوری نے غیرملکی ایجنٹس اور ان کے سہولت کاروں کو ہمارے استحصال کا موقع فراہم کیا ہے لہذا ہمیں اپنی اندرونی نظام اورملکی حالت درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ عسکریت پسندی خواہ کسی بھی شکل میں ہواسے فوجی و انتظامی طاقت کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی ترقی، تعلیمی اصلاحات،سیاسی حکمت عملی اور جہاں کہیں ضروری ہو قوانین میں تبدیلی جیسے اقدامات سے شکست دینا ضروری ہے۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے اتفاق رائے اور اس کے نتیجے میں بنے والے نیشنل ایکشن پلان کے باوجود بھی ریاست اب تک اپنے شہریوں کی مکمل حفاظت کے لیے ضروری اقدامات یک جہت کرنے پر رضامند ہیں اور جب تک یہ نہیں ہوتا پاکستانی اسی طرح بلاضرورت مرتے رہیں گے۔
پاک سرزمین پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ریاست کو اپنی حاکمیت منوانے کے لیے ریاست کو منتشر کرنے اور اسے عدم استحکام سے دوچار کرنے میں ملوث تمام عناصر کو واضع اور سخت پیغام دینا چاہیے۔ وہ جو جائز ، آئینی اور قانون اصلاحات اور درستی چاہتے ہیں ریاست ان کی اعانت کرے لیکن اس کے لیے ریاست کی جانب سے لچک کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ پی ایس پی متفقہ ایکشن پلان اور ایک موثر اور فعال نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی( NACTA) کے قیام کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ پی ایس پی نیشنل کا انٹرٹیررازم اتھارٹی کو فعال بنانے کے لیے مناسب وسائل اورسیاسی اعانت فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہ اپنے منشور پر پوری طرح عمل درآمد کر سکے۔
یہ ہمارا کامل یقین ہے کہ دہشت گرد گروہوں کی نمو میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے پاکستان کو ان سماجی ، سیاسی ، اور معاشی محرکات پرتوجہ مرکوز کرنی ہوگی جولوگوں کو تشددکر نے یااس کی حمایت پر اکساتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان عوامل کی پہچان اور تجزیہ بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے جوان انتہا پسند اداروں ،تنظیموں کے بنے کی مضبوط وجہ ہیں۔ ریاست کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کے انتظامات ملک میں سے تصادم کی حوصلہ شکنی، عملی طور پر انسداد بدعنوانی کی کوششوں کو تقویت دینا، تعلیم اور روزگار کے مواقع کا فروغ، تیز انصاف تک لوگوں کی بڑھتی رسائی نسلی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ برداشت کا فروغ اور اعتدال پسند آوازوں اور عدم تشدد کے متبادلات کے لیے جگہ بنانا ہے جیسےاقدامات کرنا ضروری ہیں۔ یہ سب ایک بہترین فنڈنگ، بااختیار نیشنل ایکشن پلان اور خارجہ سطح پر نیشنل انٹرنل سیکورٹی پالیسی (NISP) کو سہارا دے کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاک سرزمین پارٹی تجویز دیتی ہے کہ سول سوسائٹی سمیت تمام فریقوں کو اس میں سنجیدگی اور احترام کے ساتھ شریک کیا جائے۔ ریاستی بیان کا نیا پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر مرکزیت اور برتری دینے پر زور دیتا ہے جس میں تمام معاشرتی اداروں کوبرتری حاصل ہو۔آئین پسندی ، اشتراکی نظم ونسق ، قانون کی بالادستی اور سماجی و معاشی انصاف کے اصولوں کو سیاسی انتظام اور حکمرانی کا بنیادی نشان ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں ، مقنَنہ ، مجلس شوری کے اراکین اور منتخب مقامی حکومتوں کے ذریعے Religio- cultural pluralism ، برداشت اور مساوی شہری حقوق پرمبنی نظر یہ عوام تک پہنچانا اور ان گروہوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے جو مذہب کو نفرت اور تشدد کے فروغ میں استعمال کرتے ہیں۔
ماضی میں دی جانے والے عام معافی کے اصولوں اور پیکجیز کو سامنے رکھتے ہوئے پی ایس پی سیاسی و دیگر تنظیموں اور ان کی قیادت کی بد نیتی کے نتیجے میں گمراہ ہونے والے دہشت گرد عناصر ،علیحدگی پسند عناصر ،سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر اور عسکریت پسند گروپوں کے لیے آئینی اور قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی معاونت سے پارلیمنٹ یا حکومتوں کے ذریعے قومی سطح پر Rehabilitation کی خصوصی اسکیم متعارف کروانا چاہتی ہے۔ پی ایس پی ایک سچائی اور مفاہمت کے کمیشن (Truth and Reconciliation Commission) کے قیام کے ذریعے ان کی آباد کاری اور مفید ارکان کے طور پر معاشرے میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم فاٹا اور بلوچستان میں اس کی مثال قائم کر چکے ہیں اور اب ایسے ہی اصلاحی طریقوں کا ملک کے دیگر شہروں میں بھی اطلاق ضروری ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کی سائنس اورٹیکنالوجی کی پالیسی کا مقصد پانچ سال کے اندر بین افراد کے ملک سے انخلا کے عمل کو الٹ کر ذہین افراد کو ملک میں لانا ہے۔ ماضی کی سائنس اور ٹیکنالودجی کی پالیسیاں اور اس کے لیے مختص کیا جانے والا بجٹ ملک میں بہتر صنعتی ترقی، صحت اور زراعت کا موثر نظام اور ان کے مسائل کا حل، غذائی ٹیکنالوجی ، سستی ہاؤسنگ ،توانائی کے مسائل وغیرہ اور لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی خاطر خوا قدر نہیں لا سکے ہیں۔ پی ایس پی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارا سکورکارڈ کمزور ہے۔
پاک سرزمین پارٹی سائنس اورٹیکنالوجی کی پالیسیوں کو اس مفلوج حالت سے آگے بڑھانا چاہتی ہے اور ہنرمند سائنسی کمیونٹی (مقامی اور بیرون ملک میں مقیم دونوں )کے ساتھ مل کران پالیسیوں کوملکی ضروریات کے مطابق بنانا چاہتی ہے تا کہ معیشت اور سماجی شعبے اس سے براہ راست فائدہ حاصل کرسکیں۔ پی ایس پی کی سائنس اورٹیکنالوجی کی پالیسی زراعت، غذائیت، ماحول، صحت اور ملکی توانائی کے تحفظ پر خصوصی زور دیتی ہے۔
ہمیں کامل یقین ہے کہ حقیقی تبدیلی سائنس اور ٹیکنالوجی ہی سے ممکن ہے اس لئے ہم بلندترجیحی شعبوں میں تحقیق کےلیے مناسب طور پرجگہ بنانا چاہتے ہیں۔ پی ایس پی ذہین افراد کے لیے سائنس اورٹیکنالودجی کا شعبہ اختیار کرنے کی حوصلہ افرائی کرتی ہے اور ذہین افراد کو ان کے رجحان کے مطابق سائنسی تحقیق کی جانب راغب کرنے پر فوکس کر یگی ۔ اسکول کے درجے سے لے کر اعلی سطح کی حقیق تک انہیں پرکشش وظیفے، فنڈنگ کے منصوبے میں توسیع ،بہتر لیبارٹری کی سہولیات اور دیگر سہولیات مہیا کرناپی ایس پی کے اہداف میں شامل ہے۔
پی ایس پی سائنس اورٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آزمائی ادارے متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے جونئے محتقین کو براہ راست نتائج اور تجارتی اعتبار سے نمو کے قابل شعبوں، جیسے کسان مرکز ، زرعی سائنس، بہتر فصلوں کی تیاری ، غذا، صحت ، توانائی کے شعبوں میں اختیارات ، زمین اور ماحولیاتی علوم میں تحقیق کے مواقع دے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پی الیں پی خالص اور اپلائیڈ سائنسز میں تحقیق کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
مزدوروں کے حقوق کا تحفظ پی ایس پی کا بنیادی ہدف ہے۔ پی ایس پی مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، بہتر کام کی صورت حال، بہتر مزدوری کویقینی بنانے ، چھٹیاں اور با معاوضہ زچگی اور پوری چھٹیوں کے حوالے سے مزدوروں کے قوانین پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے۔ کم از کم مزدوری کا پیمانہ اور رہائش اخراجات اور مہنگائی کی شرح کے مطابق ملازمین کو دیے جانے والے فوائد نیز صحت کی بہتر نگہداشت تک ملا زمین کی رسائی، تعلیم ،مہارتوں کی تعمیر کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرنا تاکہ آجر و مزدور کاتعلق بہتر ہو سکے یہ سب پی ایس پی کی توجہ کا مرکز ہیں۔ پی ایس پی بڑھتی ہوئی معیشت کی دشواریوں سے نمٹنے کے لیے مہارت یافتہ افرادی قوت تیار کرنے، حکومت ، آ جر اور ملازمین کی مشترکہ کوششوں سے ملازمین کی پیداواری صلاحیت، صحت اور تحفظ پرزوردیتی ہے۔ پی ایس پی سوشل سیکورٹی سے حاصل ہونے والی خطیررقم کے استعمال کویقینی بنانا چاہتی ہے۔
مزدوروں کا ایک بڑا مسئلہ ان کے ویلفیئر سے متعلق اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ پی ایس پی اس بات کو یقینی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق تمام وفاقی وصوبائی اداروں کے درمیان بہتر رابطہ ہواور ون ونڈو آپریشن کے ذریعہ مزدوروں کے سماجی، سیاسی، معاشی اور ذاتی نوعیت کے مسائل کا حل ہو سکے۔ پی ایس پی مزدورویلفیر کے تمام اداروں کو پابند کرے گی کہ وہ اپنی صلاحیتیں بین الاقوامی سطح پر لے جائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے دفاتر تک مزدور کا پہنچنا آسان اور قریب ترین ہو۔ مزدور ویلفیز کے فنڈز کے بلاجواز اور بے دریغ استعمال کو روکا جائے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے آنے والی ترسیلات زر ہماری معاشی نموکا بڑا حصہ ہیں۔ ان کا یہ عمل ترسیلات زریا عطیات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کی معیشت کی ترقی میں روز افزوں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پی ایس پی دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے سب سے پہلا National Overseas Pakistanis Development Fund قائم کرنے کی تجویز دیتی ہے ۔ اس فنڈ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں مقیم پاکستانی کاروبار کے لیے سرمایہ کاری میں اعانت کے قابل ہوں گے جو پاکستان بھر میں غربت کے مقا بلے تعلیم، مالیات، زراعت صحت، پانی اور صفائی، توانائی کی تیاری واستحکام جیسے اہم شعبوں میں مددگار ہو گا۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے اشتراک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے نئے وسائل اور سرمایے کے ساتھ قومی یکجہتی کو فروغ ملے گاجو ملک کی ترقی میں مددگار ہو گا۔ پی ایس پی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو نہ صرف ووٹ کا حق پہنچانا چاہتی ہے بلکہ بیرون ملک ہی ووٹ کاسٹ کرنےکے مناسب انتظامات کرنا چاہتی ہے تا کہ وہ بھی ملک وقوم کی قسمت کے ہر فیصلے میں شریک ہوں ۔ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے دوبارہ اجرا کے عمل کو باسہولت بنانا بھی پی ایس پی کے اہداف کا حصہ ہے۔
پاک سرزمین پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون ہونے کے ناطے میڈیا کواحترام اور قانون کی سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔ ہم آزادی اظہار پریقین رکھتے ہیں اور معلومات اور ابلاغ کے حق کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز جن کا تعلق میڈیا، پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی سے ہو، ان کے ساتھ مل کر اتفاق رائے سے قانون سازی کرنا چاہتے ہیں۔ پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ اخبارات اور میڈیا کی ریجنل اورقومی کی تنظیموں کے اتفاق اور مشاورت سے میڈیا پالیسی ترتیب دی جائے جس کے تحت:
- موجودہ میڈیا پالیسی پرنظرثانی کر کے متفقہ سفارشات کی روشنی میں نئی قومی میڈیاپالیسی روشناس کرائی جائے گی۔
- سینسرشپ کی پالیسی پرعمل درآمد میں شفافیت لائی جائے گی۔
- پی ٹی وی / پی بی سی کو خودمختار ادارہ بنایا جائے گا۔
- قومی میڈیا، قومی یکجہتی کے فروغ اور پاکستان کا بہتر امیج پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
- پیمرا کومثبت انداز میں فعال بناکر اس ادارے کو سیاسی اثر سے آزاد کیا جائے گا کہ میڈیا کے مختلف شعبہ جات جیسے کہ مقامی ٹیلیویژن ،کیبل، انٹرنیٹ چیلر اور ریڈیوا سٹیشنز کے آزادانہ قیام میں تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ ایک فعال الحاق قائم کیا جا سکے۔
پاکستان میں دیرپا امن کے قیام اور شہریوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے لیے پولیس کے محکمے میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پی ایس پی چاہتی ہے کہ امن وامان کے مسئلے اور دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے مزید وقت ضائع کیے بغیر وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں کے اشتراک سے اختیارات کا توازن قائم کیا جائے جو:
- پولیس کے محکمےکو غیر سیاسی بنائے۔
- پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، سیاسی جماعتوں،عوامی پراسیکوٹرز اور دفاعی قانون دانوں کا کردار فعال کرنا۔
- پولیس کو مثبت ادارے کی حیثیت سے متعارف کرانا تا کہ یہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکے۔
- پولیس کے ادارے کو شفاف، غیر جانب دار اور عوام کو جواب دہ بنانا۔
- پی ایس پی نیشنل ڈی وپنائزیشن پروگرام (NDWP) متعارف کروانا چاہتی ہے جوتمام ثقافتی، روایتی اور علاقائی تمدن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بتدریج ملک کو اسلحے سے پاک کرے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ضرور ہے لیکن ملک میں امن وامان کی مکمل بحالی اور قانون کی حکمرانی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے۔
- پولیس کی عوام دوست تنظیم میں تبدیلی کے لیے Front Office اسٹاف کی خصوصی تربیت کرنا تاکہ شہریوں سے Client / Customer کے انداز میں پیش آیا جائے اور عوام کاپولیس پراعتماد بحال ہو سکے۔
- کلیدی عہدے داروں کی مدت ملازمت میں تحفظ فراہم کرنا۔
- پولیس کے لئے مناسب بجٹ مختض کرنا اورکرپشن، نامناسب اور غیر ضروری اخراجات کی روک تھام۔
- جدید اسلحہ اورٹیکنالوجی کی فراہمی سے پولیس کی استعدادکو بڑھانا اور جرائم کی روک تھام ساتھ ہی مقابلہ و پچاؤ کی مسلسل تربیت بھی دینا۔
ریاست کو مضبوط ترین بنانے کے لیے پولیس کی کارکردگی یونین کونسل تک منتقل ہونی چاہے جہاں کام انجام دینے کے لیے ان کے پاس واضح لائحہ عمل ہو۔ چھان بین کے علاوہ مقامی پولیس کو حفاظت، خطرات سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے کی تراکیب بھی اختیارکرنا چاہیے۔ کمیونٹی پولیس کو مقامی پولیس کا خصومی ڈومین ہونا چاہیے۔ لوکل پولیس کے لیے قانون نافذ کرنے والے بجٹ میں ایک واضح اور مناسب حصہ ہونا چاہیے۔ ہمارا حالیہ نظام پولیس عملی طور محج ردعمل کے اصول پر کام کرتا ہے۔ ہم مقامی پولیس یونٹ کے لیے فعال احتیاطی اورتعلیمی کردار کے خواہاں ہیں جو کمیونٹی شعور کو بڑھا سکتا ہواور کمیونٹی سے دوباره روابط قائم کرنے کے عمل میں مددگار ہو سکے۔ مقامی پولیس بھی رضا کار یت کوفروغ دینے کے لیے اہم ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کی خارجہ پالیسی، پاکستان کے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد مثبت اقدامات (سیاسی وسماجی) تمام اقوام کے ساتھ آزادی کے باہمی احترام خودمختاری ، تمام اقوام کے ساتھ مساوات اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلات رکھنے پرمبنی ہے۔ پی ایس پی مخلصانہ یقین رکھتی ہے کہ ریاستوں کے درمیان کوئی مستقل دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی،سوائے ریاست کے قومی اور معاشی مفاد کے جو کہ تمام تعلقات ونظریات کی بنیاد ہے۔
پاکستان اس وقت صرف اپنی Geo Strategic Position پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے جبکہ آج کے دور میں ترقی یافتہ ممالک اپنی جغرافیائی معاشی حالت سے تعمیر ہوتے ہیں ۔ قوی سالمیت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی معاشیات ، خوراک، پانی، اور موسمی تبدیلیوں کوبھی قومی تحفظ کا اہم ترین حصہ مانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی میں ایسا نہیں ہے۔ ہمارا یہ عزم ہے کہ ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دوراندیش طریقے سے واضح اور بھر پور تبدیلی لائیں گے اور اور عالمی امن وخوشحالی کے لیے اس خطے م،سلم امہ اور عالمی برادری میں پاکستان کو ایک مستحکم رکن کی حیثیت سے پیش کریں گے۔
پاکستان نے اپنے مفادات کے حوالے سےGeo-Economic اور Geo-Connectivity کو سرے سے نظر انداز کیا ہے۔ ایک کمزور معیشت اور جی ڈی پی کی ہر سال تین سے چار فیصد بڑھتی ہوئی سطح کے ساتھ ایک مؤثر خارجہ پالیسی تشکیل دینا زیادہ پاکستان کے لیے ممکن نہیں رہا ہے۔ ہم طویل عرصے سے ایک طفیلی حالت (Client State) میں ہیں اور اس نے ہماری قومی نفسیات کو اندرونی طور پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم تمام ریاستوں سے برابری کے اصولوں پر تعلقات قائم کر یں چین سے ہماری دوستی اب تک ہمارے لیے بہترین سرمایہ رہی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیں ہرسطح پر معیشت کے تمام شعبوں میں اور بلخصوص انفرادی سطح پرمحفوظ بنانا اور وسیع کرنا چاہے۔ امریکہ اور پاکستان کے رشتے میں ابتدا سے چلے آرہے نشیب وفراز میں ہمارے سیکھنے کے لیے کئی سبق موجود ہیں ۔ دونوں عظیم قوموں کے مستقبل کے تعلقات کے لیے مزیدنئی بنیادیں بنانے کی ضرورت ہے جو احترام، اعتماد اور مستحکم وخوشحال پاکستان نیز محفوظ خطے اور پائیدار دنیا کے لیے ماحول دوست معاشی مقاصد (Ecofriendly Economic Goals) کے حصول کے لیے ہوں۔
آئندہ برسوں میں روایتی حریف و دوست ممالک اپنی معاشی ضروریات ، رابطے اور نصب العین کے زیر اثر ہوں گے لہذا ایک دوسرے کے لیے برادرانہ محبت اور اختلافات انہی بنیادوں پر طے ہوں گے۔ ہمیں اس ارتقا کوسمجھنا چاہیے اور اسے اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنانا چاہیے تا کہ ہم عالمی برادری کا مؤثر رکن بن سکیں اور اپنی خودمختاری پرسمجھوتانہ کرتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں نیز بیرونی عسکری وغیرعسکری خدشات کے مقابلے کے لئے بہتر طور پر تیار ہوں۔ اس کی مدد سے ہم معاشی اور اپنی بقاء سے متعلق اندرونی و بیرونی خدشات جیسے ابھرتے ہوئے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہوں گے۔ نئے دشمن یعنی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہماری آبادی میں چھپے ہوئے ہیں اورہمارے ہی درمیان ہیں، جومہلک اور انتشار پیدا کرنے والے ہیں۔
مسئلہ کشمیرکاحل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق انہیں حق خودارادیت Right of Self Determination بذریعہ آزادی استصواب رائے یعنی Plebiscite میں ہے۔ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس رہے گا اور مسئلہ کے حل کے لیے Lobbying کی جائے گی تا کہ بین الاقوامی برادری کے تعاون سے اقوام متحدہ کو باور کرایا جا سکے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔
پاک سرزمین پارٹی کا یقین ہے کہ جب تک انفرادی مفادات ہمارے قومی مفادات پر حاوی ہوتے رہیں گے حکومت شہری حقوق کو یقینی نہیں بناسکتی نہ ہی ان میں بہتری لاسکتی ہے۔ پاکستان کا مسئلہ ’بڑے قوانین‘ نہیں ہیں بلکہ ان پرعمل درآمد کی کمی ہے۔ 2015ء کے اختتام تک سپریم کورٹ میں27,000مقدمات، اور لاہور اور سندھ ہائی کورٹ میں سے ہر ایک میں60,000 مقدمات زیرالتوا تھے۔ ان میں سے بڑی تعداد ان مقدمات کی ہے جو ایک عشرے سے زیادہ زیر التوا ہیں ۔ ملک میں نا کافی اور طول پذیرانصاف کی دوواضح وجوہات ہیں: پہلی ، عدلیہ کے تمام درجات میں ججز کی کمی، اور دوسرے، عدالت برخواست ہو جانے کے ذریعے کیسوں کو طویل عرصے تک لٹکانے کے تاخیری حربے۔
- پاکستان میں صاف شفاف اور فوری انصاف کے لیے سفارشات
پاک سرزمین پارٹی اس بات کویقینی بنانا چاہتی ہے کہ ملک بھر میں بلا امتیاز وتفریق ریاست کی رٹ قائم ہواور عدلیہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے ساتھ اس کے عہدے، شخصیت یا طاقت سے قطع نظر انصاف سے پیش آئے۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے پی ایس پی درج ذیل سفارشات پیش کرتی ہے .
- پی ایس پی ایسا قانون لانے کا ارادہرکھتی ہے جو عدلیہ کو پابند کرے کہ وہ کی بھی مقدے کو 14 سے زیادہ دن کے لیے ملتوی نہ کریں۔ قانونی بنجر زمین کو دوباره قابل استعمال بنانے کے لیے مقدمات صرف استثنائی حالات ہی میں ملتوی کیے جاسکیں۔ کسی بھی مقدے کومخصوص مدت تک ہی ملتوی کیے جانے کی اجازت ہو تا کہ عام آدمی کی زندگی کا بیشتر حصہ اسی میں صرف ہو جائے اور اس کی جمع پونجی عدالتوں میں خرچ نہ ہوتی رہے۔
- سرکاری سر پر لیگل ایڈکمیٹی کے ذریعے مستحق اور غریب عوام کو قانونی مشیروں کی فراہمی یقینی بنائے گی ۔ یہ کمیٹی اس بات کی جانچ اور فیصلہ کرے گی کہ حقیقتاَ کسے قانونی معاونت کی ضرورت ہے۔
- پی ایسں پی فوری بنیادوں پرججر کی کمی کو دور کرے گی۔
- ای جسٹس ( E - Justice ): پی ایس پی پاکستان بھر میں ای جسٹس (E – Justice) نظام کو مزید بہتر کرنا چاہتی ہے جس کے کیس ٹریکنگ سسٹم (CTS) سے عوام کی عدالتوں کے ریکارڈ اور عدالتی کارروائیوں سے متعلق معلومات تک بذریعہ انٹرنیٹ اور موبائل فون با آسانی رسائی ہو سکے۔
- ای جسٹس ( E - Justice )اور CTS، عدالتوں میں بدعنوانی کی نشاندہی کرنے اور خاتمے کے ساتھ ساتھ مقدموں کو آگے بڑھانے اور انہیں جلد انجام تک پہنچانے میں اہم کردارادا کرسکتا ہے۔
- تیز رفتار عدالتی نظام کے لیے اہل عملے پرمشتمل عدالتی انتظامی کو آسان ،لائق اور مؤثر بنایاجائے گا۔
- بنیادی انسانی، آئینی اور قانونی حقوق کی آگاہی کے لیے قانون کے بعض حصے اسکول نصاب کا حصہ بنائے جائیں گے۔
- ماتحت عدالتوں اور ہائی کورٹ کی جانب سے مقدمات کو التوامیں ڈالنے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
- انسانی حقوق
ہم تمام پاکستانی شہریوں کے بنیادی آئینی ، قانونی اور جمہوری حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں خواتین کے حقوق، ان کے اختیارات ، دونوں جنسوں کے مابین تنخواہوں کے فرق مٹانے، بچوں کے حقوق، اقلیتوں، بزرگوں اور معذور افراد ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر خاص توجہ دی جائے گی۔ پاکستان جن بین الاقوامی معاہدوں اور باتوں پر دستخط کر چکا ہے ، ہم ان کی توثیق کرتے ہوئے ان کے موثر نفاذ کے لیے کام اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق مرکز ی انسانی حقوق کی دستاویزات ، بین الاقومی معاہدوں اور میثاقوں کے نقاز فروغ اورتحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہیں گے جیسا کہ؛
- شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ
- تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانیی اذلت آمیز برتاؤیا سزا کے خلاف عہد
- معذوری کے حامل افراد کے حقوق کا معاہدہ اور
- بچوں کے حقوق، بچوں کی فروخت ، بچوں کی عصمت فروشی اور بچوں کی فحش نگاری سے متعلق معاہدے کی اختیاری دستاویز
پاکستان کی آزادی کے موقع پرقائداعظم نے مزہبی اقلیتوں کو یقین دہانی کروائی کی کہ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں ، اپنی عبادت گاہوں میں جائیں ، آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، کاروبارمملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں ۔ پی ایس پی انسانی حقوق اور بالخصوص اقلیتوں کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا مکمل احترام کرتی ہے اور ان پرعمل در آمد کا ارادہ رکھتی ہے۔
پی ایس پی اقلیتوں کے لیے ان کی آبادی کے تناسب سے ملازمتوں کے مواقع اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کے مواقع فراہم کرے گی ۔ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لیے پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ کمیونٹی کی سطح پراتحاد یگانگت ، بھلائی اور مفاہمت کے جذبات رکھتے ہوئے تمام مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے لیے اجتماعی پروگرام انعقاد کروائے جائیں جس میں تمام کمیونٹیز مل جل کر حصہ لیں ۔ پی ایس پی ایسے کسی بھی اقدام کی پرزور مذمت کرتی ہے جو انسانی حقوق کے منافی ہو یا جس سے کسی بھی مذہب یانسلی گروہ تعلق رکھنے والوں کی دل آزاری ہوتی ہو۔
پاک سرزمین پارٹی ایک مکمل آزاد الیکشن کمیشن چاہتی ہے جس کے پاس وافر وسائل، جدیدٹیکنالوجی و انتخابی نظم ونسق کے تمام تر پہلوئوں پر اس کا اختیار برقرار رکھنے کے اسباب ہوں تا کہ اصلاحات کا درست نفاد یقینی بنایا جا سکے بصورت دیگر انتخابی اصلاحات ظاہری آرائش سے زیادہ کی نہیں ہوں گی۔ جہاں انتخابی اصلاحات ضروری ہیں وہیں ان اصلاحات کا بھر پور نفاذ اور بطور ادارہ اپنے اوپر اعتماد کی بحالی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی صلاحیت کا اصل امتحان ہو گا۔ لہذا ECP کے نئے اراکین کا دانشمدانہ و منصفانہ انتخاب بھی بہت اہم ہے۔
پی ایسں پی اگلے عام انتخابات سے قبل اسنتخابی عمل کے تقدس کو بحال کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ آئندہ انتخابات میں پیسوں کے عمل دخل پر قابو پانے کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی اخراجات کا ضابطہ بنائے جانے اور اس پرعملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ نئی مردم شماری میں شفافیت کے بغیر ، قانونی و انتظامی فریم ورک میں موجود کمزوریاں دور کے بغیر انتخابات کا انعقاد پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔
جدید اور نادرا سے تصدیق شدہ ووٹنگ فہرست کا اہتمام انتخابات کی شفافیت کی جانب پہلا قدم ہے۔ انتخابات کے لیے لیگل فریم ورک اور انتظامی طریق کار کی کمزوریوں کی جانب سپریم کورٹ کے کمیشن نے نشاندہی کی ہے۔ ضرورت ہے کہ ان پر باقاعدگی سے نظر ثانی اور ترامیم کی جائیں تا کہ انہیں عالمی معیارات اور ذمہ داریوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا یقینی بنایا جا سکے ۔ اس امر سے قابل بھروسہ شفاف، موثر اور بھرپورانتخابی عمل یقینی بناتے ہوئے جمہوری نظام کی اثرانگیزی پر اعتماد قائم رکھنے مستقل کوششوں کی وسیع ضرورت کا اظہاربھی ہوتا ہے جوانتخابات سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کی توقعات سے ہم آہنگ ہو۔
یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ مختلف طریقوں سے قبل از انتخابات ہی دھاندلی کا آغاز ہو جاتا ہے اور یہ کہ اصل انتخابی دن پولنگ اسٹیشن کے قریب سیاسی جماعت کے کیمپوں اور شر پسند عناصر کی موجودگی ہی سے کئی امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہو جاتا ہے جو بھاری موجودگی رکھنے والی کسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے طاقت کے اظہار اور ڈرانے دھمکانے جیسے ہتھکنڈوں کا آزادانہ استعمال کر سکتے ہیں۔ پونگ عملے، انتخابی عمل اورنتائج پر براہ راست اثرانداز ہونے والے اس تشویشناک اور نتیجہ خیز تکلیف دہ عمل سے نمٹنے کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ انتخابات کے دن خصوصاَ پولنگ مراکز کے قریب کسی بھی سیاسی جماعت کا کیمپ، کارکنان یا سرگرمی کی اجازت نہ ہو صرف الیکشن کمیشن ہی کا کیمپ ہونا چاہے۔ الیکشن ٹربیونل کو ہرحال میں پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی معینہ مدت کے اندر اندر الیکشن پٹیشنر پرفیصلہ دے۔
پاکستان کے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت اختیار کرنے کے قابل بنانا اور اس تبدیلی کی حمایت میں سیاسی موافقت پیدا کرنا پی ایس پی کے موسمیاتی تبدیلی اور جنگلات کے ایجنڈے کا بنیادی نقطہ ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے غالباَ سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی ہے جس کا اثر ترقی کے بہت سے پہلوؤں پر ہوتا ہے اور یہ ہمارے طبقاتی امتیازات کوبدتر بنارہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی برسوں میں کی گئی ترقیاتی بہتری اور انتہائی غریب و پسماندہ طبقات کی بقاء اور طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ پی ایس پی کا کامل یقین ہے کہہ میں بطور ایک قوم کے اپنی عادات اور طرز زندگی میں ماحول دوست اور پائیدار تبدیلیاں لانی چاہیں۔ اس مقصد کے لیے پی ایس پی وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی سطح پر ’پاکستان ماحولیاتی استحکام‘ کا پروگرام متعارف کروانا چاہتی ہے۔ یہ پروگرام استحکام کی قومی تفہیم اور توانائی، پانی اور ماحولیاتی استحکام کے حصول کے لیےمختلف شعبہ علمی کی مدد سے سماجی و معاشی اور پالیسی تناظرات کا امتزاج تیارکرے گا۔
- نصب العین برائے پالیسی اور ضابطہ عمل
ہم چاہتے ہیں کہ:
- موسمیاتی تبدیلیوں کے ایجنڈے میں غریب عوام کو مرکزی حیثیت دے کر ان کا معیار زندگی بہتر کیا جائے۔
- ناگہانی و قدرتی آفات سے بہتر طور پرنبرد آزما ہونے کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے درمیان تعلق کی تحقیق کی جائے۔
- چھوٹے زمین داروں ، موسمیاتی تبدیلیوں اور مواقع کے مابین رابطہ کو سمجھتے ہوئے چھوٹے پیا نے پر زرعی نظاموں کو فائدہ پہنچایاجائے جس کے ذریعے غربت میں کمی، تحفظ خوراک اور ماحولیاتی استحکام لاتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔
ہم اپنے تمام تر خیالوں اور ضابطہ عمل میں استحکام کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے اس اصول کے تحت کام کرنا چاہتے ہیں کہ ترقی وقت اور جگہ جیسی رکاوٹوں کی محتاج نہیں ہوسکتی بلکہ ماجی کو بنیاد بناتے ہوئے حال کے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اورمستقبل کے لیے وسائل محفوظ کرتے اور ان میں اضافہ کرتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہوں۔
- قانون سازی اور پالیسیوں کے ذریے پی ایس پی کا ارادہ ہے کہ وہ:
- مستحکم زراعت کے فروغ کے لیے ایسی زرعی تکنیکوں کو فروغ دے گی جو ماحول ،عوامی صحت، انسانی معاشروں اور حیوانی بہبودکا تحفظ کریں۔
- صاف ایندھن سے توانائی کی پیداوارکی حوصلہ افرائی کرے گی۔
- صاف ایندھن کو فروغ دے کر ان کے ذریعے خصوصا شہروں میں آلودگی میں کمی لائی جا سکے۔
- پرو۔ایکٹیوکاربن کریڈٹ کے تصور کو فروغ دے گی۔
- منصوبوں کی ماحولیاتی جانچ اور شہروں اورقصبوں کی آلودگی کا ارشاریہ سائنسی بنیادوں پرمرتب کرے گی۔
- آلودگی پر قابو پانے کے طریقہ ہائے کار ترجیحی بنیادوں پر طے کرے گی۔
- موجودہ جنگلات اورجنگلی حیات کے وسائل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کی بنجر زمینوں کو سماجی جنگلات کے لیے استعمال کرے گی۔
- سبزعمارات (Green Buildings) اورتوانائی کم خرچ کرنے والے جائے کار کے لیے راہنما اصول پیش کرے گی۔
- ماحولیاتی ٹیکنالوجی میں تحقیق وجدت طرازی اور افرادی قوت کی نشونما کو فروغ دے گی۔
- جنگلی حیات کے تحفظ اور نگہداشت کے لیے طریقہ ہائے کار مرتب کرے گی۔
- طے شدہ پروگراموں کے ذریعے، جنگلات کی نو آبادکاری ، نیززرعی و سماجی جنگلات میں اضانے کی مہم میں شہریوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
- کچرے کو ٹھکانے لگانے اور فضلے سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار، خصوصاَ Recycling Techniques میں جدت طرازی کی حوصلہ افزائی کرے گی اور اس کی ترغیب دے گی۔
- پی ایسں پی موثر قانون سازی اور پالیسیوں کے ذریعے Wetlands قوی سبزہ زاروں اور قدرتی مساکن سے متعلق آگاہی پیداکرنے کے لیے سنجیدگی سے جدوجہد کرنے کے لیے پر عزم ہے۔ Wetlands اور قومی سبزہ زاروں کو آباد رکھنے اورتحقیق کے لیے فنڈ قائم کیا جائے گا جو ان کے تحفظ اور فروغ کے لیے مختص ہوگا۔
پاک سرزمین پارٹی اپنے ملک کے بین الاثقافتی معاشرے اور اس کی تمام تر زرخیزی اور تنوع کو بہت اہمیت دیتی ہے کیونکہ یہی وہ طاقت ہے جو ہمیں پوری زندگی اچھا شہری بناتی ہے اور ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور احترام پیدا کرتی ہے۔ ریاست کو ہمارے بھر پور ثقافتی ورثے کے ہر جز کو برابر اہمیت دینی چاہیے۔ پی ایس پی تمام اقدار اور روایات کا احترام کرتے ہوئے ہماری صدیوں پرانی ثقافت پر پورا انحصار کرنے پرزوردیتی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کا ارادہ ہے کہ
- اسکول نصاب اور اعلی تعلیمی در جات میں ادب فنون اور اخلاقیات پر علوم متعارف کروائے جائیں گے۔
- نئے ٹیلنٹ کی نشونما میں معاونت کے لیے امداداور فنڈ قائم کیے جائیں گے۔
- موجودہ فن و ثقافت کے اداروں کو مستحکم کیا جائے گا۔
- پاکستانی فلم اور دنیا کا دوبارہ احیا ہورہا ہے۔ پاکستان میں فلم سازی کے لیے مائل کرنے والاماحول تخلیق کرنے میں پی ایس پی نجی شعبے کا بھرپور ساتھ دے گی۔
- میڈیا سیٹیز قائم کیے جائیں گے۔
- تمام قوموں اور ان کی ثقافتوں کو فروغ دیا جائے گا تا کہ پاکستانی ثقافت اور ورثے کی زرخیزی کو محفوظ کیا جا سکے۔
- فنون اور ادبی تنظیموں کے ذریعے تخلیقی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے انفراسٹر کچر فراہم کیا جائے گا۔
- پی ایس پی صوبوں کے مختلف حصوں میں ثقافتی تنوع کی سا لمیت کو محفوظ رکھے گی اور دانشوروں ، شاعروں ، فنکاروں ،رائٹرز ، ہنرمندوں ، ثقافتی اور روایتی معماروں اور ثقافتی سرگرمیوں اور اظہاریوں سے وابستہ دیگرتمام لوگوں کے خیالات اور آواز کوتحریک دے گی۔
- شہری ورثے اور سیاحت کے تحفظ پر خصوصی زور دیتے ہوئے سرمایا کاروں کو ترغیب دی جائے گی۔
- آرٹس کونسل اور ثقافتی اداروں کو غیر سیاسی کیا جائے گا۔
- سیٹلائٹ میپنگ اور مقامی و بین الاقومی سیاحت کے ذریعے، آثارقدیمہ، روحانی اور تاریخی مقامات کو بحال کیا جائے گا۔
- آرٹس کونسلوں اور مکیونٹی ثقافتی کونسلوں کے قیام کے ذریع لوک ریتوں اور علاقائی زبانوں کو فروغ دیا جائے گا۔
- فن وثقافت کا ساتھ دینے کے لیے سرکاری اورنجی شعبے کی شراکت داری کو فروغ دیا جائے گا۔
- پائریسی کے خلاف قوانین کا مؤثرنفاذ کیا جائے گا۔
سیاحت
ترغیبات اور خصوصی پیکجزکے ذریعے ریاست کے بھر پور تعاون کے ساتھ سیاحت کو صنعت کا درجہ دیا جائے گا اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا۔ بیرونی اور اندرونی اختلافات نے مقامی اور بیرونی سیاحت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ یہی وقت ہے کہ اس طرف توجہ کی جائے اور سیاحت کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا جائے ۔ مقامی اور بین الاقوامی سیاحت کے فروغ کے لیے پی ایس پی:
- سیاحت کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی
- پاکستان بھر میں Wetlands اور قومی سبزہ زاروں میں ماحولیاتی سیاحت کو فروغ. اور
- سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ماحول دوست ترقی کے لیے خصوصی پیکج متعارف کروانا چاہتی ہے۔
پاک سرزمین پارٹی پاکستان بھر کی زمینی اور سمندری سرحدوں پر پڑوسی ممالک کے ساتھ Transboundary Peace Parts Marine Parks اور حفاظتی علاقے (Conservation Parks) قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس عمل میں تمام متعلقہ افراد اور اداروں کو شامل رکھاجائے گا۔ تحفظ اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے دوطرفہ ’امن پارکوں‘ کے قیام سے تناؤ بھرے جغرافیائی و سیاسی حالات کوحل کرنے کی دوطرفہ اور بین الاقوامی کوششوں میں مدد ملے گی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اختلافات میں کمی آئے گی۔
کهیل
پاکستان بھر پور صلاحیتوں سے مالامال ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کھیل قوموں کی تعمیر ، سماجی پیوستگی اور صحت مند طرز زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کھیل ہرسطح پر، ایک ایسا ماحول تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جہاں لوگ مل کر یکساں مقصد کے حصول کے لیے کام کرتے اور ایک دوسرے کے لیے احترام کا اظہار کرتے ہوں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں کھیل کا شعبہ بدعنوانی کے الزامات، فنڈز میں بدانتظامی، اقربا پروری، میرٹ دشمنی اور نااہلیت سے بھراپڑا ہے۔ یہی وجوہات پاکستانی قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ہمارے کھیل کے شعبے کولاحق چیلنجز نہ صرف ہمارے مردوخواتین کھلاڑیوں بلکہ تمام پاکستانی شہریوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمیں ان چیلنجوں سے بھر پور طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور پی ایس پی کا مجوزہ قومی منصوبہ برائے کھیل وتفریح اس امرکویقینی بنائے گا۔
اس منصوبے کے مطابق:
- سرکاری نجی اسکولوں اور کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے کھیل کی سہولیات اور سرگرمیاں لازمی قرار دی جائیں گی۔
- کھیلوں کے مقامی، صوبائی اور قومی، علاقائی اور بین الاقوامی مقابلے منعقد کروائے جائیں گے۔
- ضلعی سظح پراسپورٹس کمپلیکس قائم کیے جائیں گے۔
معاشی و سماجی ترقی میں ذرائع آمد ورفت کا مرکزی کردار ہے۔ پی ایس پی اپنی متحرک ٹرانسپورٹ پالیسی کے ذریعے ذرائع ابلاغ اور ذرائع آمدورفت میں بہتری لانا چاہتی ہے ۔ اس کے لیے قومی تجارتی و بار برداری گزرگاہوں کے قیام کے ساتھ تمام اہم شہروں میں کم ایندھن خرچ کرنے والی، آرام دہ، قابل بھروسہ اور کم خرچ والی اندرون و بیرون شہرعوامی ٹرانسپورٹ سسٹم، سرکلر ریلوے ،گرین بس سروس اور ماس ٹرانزٹ پروگرامز کے ذریعے آمدورفت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
پاک سرزمین پارٹی کا ہدف ہے کہ ملک بھر میں زرعی سامان اور مصنوعات کی نقل حمل کو بہتر بنانے کے لیے کھیتوں سے بازارتک سڑکوں کی تعمیر اور انہیں بہتر بنایا جائے گا۔ دوردراز علاقوں کو بین الاقوامی معیار کے ہائی ویز اور ریلوے لائنوں کے ذریعے بقیہ پاکستان سے جوڑا جائے گا۔ سرحدی اور ساحلی ہائی ویز کے ساتھ قومی ہائی وے کا جال بچھانے کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ دیہاتوں کو ہر موسم میں کارآمد سڑکوں سے جوڑا جائے گا۔ موجودہ ہوائی اڈوں اور ہوائی پٹیوں کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ مزید سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا جوخصوصا چھوٹے قصبوں کوشہروں سے جوڑنے اور سیاحت کے لیے معاون ثابت ہوگا۔ علاوہ ازیں اندرون ملک میں فضائی نقل وحمل اور کم خرچ ہوائی سفر کے وسیع امکانات بھی موجود ہیں۔ پاکستان ریلویز پرخاص توجہ دیتے ہوئے اس کی کارکردگی بہتر بنائی جائے گی۔ یہ نہ صرف Strategic اہمیت کی حامل ہے بلکہ عام آدمی اور ساز و سامان کی نقل و حمل کے لیے ترجیحی ذریعہ بھی ہے۔ ریلوے کے نظام کی دیکھ بھال کے لیے ایک مکمل طور پر آزاد بورڈ قائم کیا جائے گا۔
ای۔گورنس( (e-Governance تیز، آسان اور موثر ہے۔ پی ایس پی کا ماننا ہے کہ ہر گھرانے کوڈیجیٹلی خواندہ بنانے اور بہتر و شفاف حکومت کے لیے غیر جانبداری ،اختیار اور اثر پذیری میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم کردارکی حامل ہے۔ پی ایس پی کا نصب العین ایک ڈیجیٹل پاکستان کی طرف قدم بڑھانا ہے جہاں ہر شہری اور گھرانے کوڈیجیٹل دنیا تک رسائی ہو اور ترقی کی طرف سفر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اہم عوامل میں سے ایک ہو۔ پی ایس پی اس امر یقینی بنانا چاہتی ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل تقسیم کوکم سے کم کرنے کی ہرکوشش کی جائے تا کہ حکومتی خدمات تک رسائی میں اضافہ ہو اور پاکستان بھر میں تجارتی مواقع میں شفافیت متعارف کروائی جا سکے جو جمہوری حکومت کا اہم جزو ہے۔
پاک سرزمین پارٹی چاہتی ہے کہ
- ملک بھر میں بشمول دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ کے پھیلاؤ اور استعمال میں اضانے پر کام کرے۔
- ملک کے متحد کرنے کے لیے تیز رفتار ڈیجیٹل ہائی ویز کاقیام عمل میں لائے۔
- قومی ای۔ گورنس ( E - Governance )ماسٹر پلان متعارف کروائے جو وفاقی سے صوبائی اور مقامی حکومت تک ہر حکومتی دفتر کا احاطہ کرے گا اور ہر حکومتی کام کی ڈیجیٹلائزیشن لازمی ہوگی تا کہ بدعنوانی اور تاخیر میں کمی لائی جائے۔
- اسمارٹ گورنس( Smart - Governance ) کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد لے کر اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو شراکتی حکمرانی میں شامل رکھنے کے ساتھ عوالی شکایات کے ازالے کے لیے موثر نظام قائم کرے۔
- تمام تعلیمی اداروں اور اسکولوں کو مرحلہ وار انٹرنیٹ سے جوڑا جائے ۔ بچوں پر کتابوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے E-Learning اور ٹریننگ، نیزٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کیا جائے۔
- قومی دیہی انٹرنیٹ اورٹیکنالوجی مشن( National Rural Internet and Technology Mission قائم کیا جائے تا کہ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے ٹیلی میڈیسن اور موبائل مراکز صحت متعارف کروائے جا سکیں۔
- فوری معلومات ، ریٹیل تجارت ،MSMEsاور دیہی کاروباری حضرات کے لیے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی برائے زرعی پروگرام(IT for Agriculture Program) قائم کیا جائے۔
- ترسیل وتقسیم کے نقصانات میں کمی کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سمارٹ گورنس متعارف کروائے جائیں گے۔
- دیہی اور نیم شہری علاقوں میں آئی ٹی سے متعلق ملازمتیں تخلیق کی جائیں گی۔
- ای۔ ثقافت وفنون ) E-Culture & Arts (کا قیام عمل میں لایا جائے گا تا کہ پاکستان کی علاقائی ثقافت اور فنکارانہ ورثے کومحفوظ کیا جا سکے ۔ تمام Archives اور ریکارڈ ز کوڈیجیٹائز کیا جائے گا۔
- آزاد مصدر (Open Source ) اور آزادمعیار(Open Standard) کے سوفٹ وئیر کو فروغ دیا جائے گا۔